پہاڑ بلاتے ہیں


پہاڑ بلاتے ہیں۔ اپنی اور بلاتے ہیں، کیوں بلاتے ہیں؟ کیا کہتے ہیں؟ کچھ سنتے بھی ہیں؟ ایک بار بلاتے ہیں یا بار بار بلاتے ہیں؟ کسے بلاتے ہیں؟ ہر کسی کو ایک الگ پہاڑ بلاتا ہے یا بیک وقت مختلف پہاڑ۔ دکھنے میں سب پہاڑ پہاڑ ہی لگتے ہیں۔ پر اپنے آپ میں ہر پہاڑ ایک جدا دنیا ہے۔ جیسے ہر انسان دوسرے سے مختلف، اسی طرح ہر پہاڑ دوسرے سے جدا۔ پہاڑوں کی مختلف انواع ہوتی ہیں۔ ان کے خدوخال، اشکال مختلف ہوتی ہیں۔ پہاڑوں کا پہاڑا پڑھیں تو چھوٹے، اونچے، لمبے، بنجر، پتھریلے، مٹیالے، برفیلے، ہرے بھرے وغیرہ۔

پہاڑوں تک جانے والے ”کوہ نورد“ (ٹریکرز) اور پہاڑوں پر جانے والے ”کوہ پیما“ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں پر رہنے والے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ پہاڑوں کے دامن میں رہتے ہیں، کچھ پہاڑوں کے اوپر رہتے ہیں (چھوٹے پہاڑوں پر) ، کچھ اونچے پہاڑوں کے سائے میں رہتے ہیں، کچھ پہاڑوں سے بہت دور رہتے ہیں، پر ان کے خواب پہاڑوں کے گرد ہی گھومتے ہیں۔

ہر پہاڑ اپنے آپ میں مکمل جہان تو ہوتا ہی ہے مختلف زاویے بھی رکھتا ہے، خود کو مختلف طرح سے آشکار کرتا ہے۔ ایک پہاڑ مختلف اوقات میں مختلف مقامات سے مختلف انداز میں جلوہ گر ہوتا ہے، مختلف تاثر دیتا ہے۔ جیسے ایک پہاڑ کو اس کے بیس کیمپ سے چوٹی تک دیکھنا، ایک پہاڑ کی ہلکی سی جھلک دیکھنا، ایک پہاڑ کو دھوپ میں دیکھنا، چھاؤں میں دیکھنا، بارش میں دیکھنا، بہار میں دیکھنا، خزاں میں دیکھنا، دھند میں دیکھنا، طلوع آفتاب کے وقت دیکھنا، سورج ڈھلتے سمے دیکھنا، رات میں اس کے ہیولے کو ہیبت کو محسوس کرنا۔ غرض بدلتی رتوں، بدلتے وقتوں، بدلتے سموں میں ایک ہی پہاڑ کو دیکھنا منفرد تجربہ ہوتا ہے۔

باقی دنیا میں کہیں ایک آدھ بلند پہاڑ بھی ہو وہ اسے قیمتی متاع کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ مگر ہم شاندار پہاڑوں کی شاندار سلطنت رکھنے کے باوجود قدر کرنا نہیں جانتے۔ کیا ہی شاندار پہاڑ ہیں ہمارے پاس۔ اف کمال، زبردست، اعلی اور ایسے سارے الفاظ انھیں بیان کرنے کے لیے کم ہیں۔ کسے چھوڑیں کس کا ذکر کریں۔ پہاڑ اپنی جگہ جمے رہتے ہیں اگرچہ ارضیاتی جغرافیائی تغیرات سے ان کے خد و خال بھی رد و بدل کا شکار ہوتے ہیں مگر غیر محسوس انداز سے، سست روی سے۔ پہاڑوں کی استقامت کی دنیا قائل ہے۔ ”دکھ کے کوہ گراں سر پر لیے جو ہو سو ہو“ ، ”جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم“ ، پہاڑ جیسی اوالعزمی، ”پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات“ وغیرہ۔

پہاڑ مسحور کرنے کی تباہ کن صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاہ گوری کی ایک جھلک ہو، نانگا پربت کا کوئی چہرہ ہو، راکا پوشی کی دید ہو، ترچ میر کا کوئی زاویہ ہو انھیں گھنٹوں بور ہوئے بغیر تکا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کو کوئی نہ کوئی پہاڑ بلاتا ہے۔ جو دسترس میں ہوں وہ بھی جو رسائی سے باہر وہ بھی۔ دھندلا موسم نہ ہو تو ایک برف والے پہاڑوں کے سلسلے کا نظارہ دور سے سہا نہیں جاتا تو شاندار پہاڑوں کی آماجگاہ کنکورڈیا دیکھ کر کیا گزرے گی۔ یقیناً بے خودی تو نے بھلی چاشنی چکھائی ”والا معاملہ۔

انہونی خواہشیں دل میں پنپتی ہیں کہ صدیوں پرانے برفانی دروں پر کبھی سفر کیا جائے، سنو لیک، نانگا پربت کی چوٹی سے دنیا دیکھنا، نئے برفانی جہان دریافت کرنا۔ یہ سب ہو بھی جائے تو کیا ہو گاجو ہو سو ہو۔ اگر کسی پہاڑ پر برف کے نیچے برف بن جاؤں، برسوں، صدیوں، زمانوں بعد برف پگھلے اور اصحاب کہف کی طرح دنیا بدل چکی ہو تو کیا ہو؟

پہاڑ کچھ تو کہتے ہیں۔ موسی کو کوہ طور پر جلوہ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر غار حرا میں بعثت۔ بلند پہاڑوں میں کچھ تو الوہی اسرار ہوتے ہی ہیں۔ ویسے تو پہاڑوں کے نیچے بھی لامحدود خزانے دفن ہوتے ہیں پر چوٹیوں پر کچھ خاص کچھ الگ کچھ ناقابل بیان۔ شمال کے کچھ پہاڑ شاید ازل سے ایسے ہی کھڑے ہیں ان پر انسانی قدم نہیں پہنچے وہ اپنی اور بلاتے ہیں اور متواتر بلاتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments