والد محترم کی یادیں


ساٹھ سال اور کچھ ماہ عمر ہونے کو آئی ہے مزید کتنی عمر گزار پاؤں گا اس غیب کے علم کا مجھے معلوم نہیں نہ ہی مجھے یہ علم تھا کہ ساٹھ سال کا ہو جاؤں گا نہ یہ معلوم تھا کہ اٹھارہ سال قبل آپ چھوڑ کر اللہ کے حضور پیش ہو جایں گے۔ عالم ارواح میں اپ سے ملاقات ہوگی یا نہیں اس کا بھی علم نہیں موت برحق ہے عمر کے ہر گزرتے دن کے ساتھ انتظار کی شدت بھی بڑھ رہی ہے زندگی کے بیالیس سال آپ کے ساتھ گزارے ہم سے غلطیاں ہوتی رہیں اور آپ ہر بار معاف کرتے رہے یہ احساس ہی نہ ہونے دیا کہ ہم نے کچھ غلط کیا ہے حالانکہ کئی بار ایسا لگا کہ اب کی بار معافی ملنا ناممکن ہے پھر بھی معافی مل جاتی ہمیں ہی نہیں آپ نے دنیا میں کسی کے لیے دل میں بغض نہیں رکھا ہم تو پھر بھی اپ کی اولاد ہیں۔

جب کچھ شعور آیا تو آپ کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں صبح کو عدالتوں میں عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے اور رات گئے تک سیاسی معاملات میں مصروف رہتے اسی دوران اخبارات و رسائل میں مضامین بھی لکھتے بے پناہ کام کے باوجود تھکاوٹ کا اظہار تک نہ کرتے اور کئی بار شہر سے باہر بھی سیاسی و قانونی جنگ کے لیے جانا پڑتا۔ انہوں نے سیاست کو عین اس وقت خیر باد کہہ دیا جب بین الاقوامی نشریاتی ادارے یہ کہہ رہے تھے کہ رفیق احمد باجواہ ملک کے آئندہ وزیر اعظم ہوں گے انہوں نے قوم کو تقسیم سے بچانے کے لیے اور اللہ کے نظام کے نفاذ میں اپنی سیاست اور ذات کو قربان کر دیا۔

والد محترم کی لوگوں سے محبت اور ان کے کاموں کے لیے اپنی پرواہ کیے بغیر دن رات کوشاں رہنے کے عمل کو بچپن سے ہی دیکھتے آ رہا تھا اسی جذبے کے پیش نظر ان کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ان کی لکھی ہوئی ایک تصنیف روشن سائے کے نام سے سات سال قبل تنظیم قائم کی جو میری نظر میں دنیا کی واحد تنظیم ہوگی جس کے قیام کا مقصد کسی خاص کام کے لیے نہیں بلکہ انسانیت سے جڑے ہوئے اس کے تمام مسائل کے حل کے لیے سرگرم عمل ہے تنظیم کے سائے تلے ہونے والے کاموں کی تشہیر بھی نہیں کی جاتی خاص طور پر کسی کی ذاتی مدد کو راز میں رکھا جاتا صرف عوام سے متعلق ایسے کام مثلاً جن میں کسی سڑک کی خرابی سیوریج سسٹم جسے مسئلے کو حل کروانے پر اگاہی دی جاتی ہے اللہ کی خوشنودی کے لیے تنظیم کی جانب سے عوام کی بھلائی کے لیے کیے جانا والا ہر کام صرف اپنے والدین کے ایصال ثواب کے لیے نہیں بلکہ دنیا سے جانے والے سب کے پیاروں کے لیے ہے کیونکہ نہ اس تنظیم کا کام محدود ہے اور نہ اس کے انسانیت کی فلاح کے لیے کاموں کی وجہ سے اللہ کی جانب سے اگر اجر ملے گا تو وہ بھی سب کے لیے ہی ہو گا یہ ہی ہماری اللہ کے حضور دعا ہے کہ ہم سے اگر اچھا کام ہو جائے تو سب کو اس کا ثواب پہنچے اس لیے کہ اللہ کی رحمتوں کو محدود نہیں کیا جا سکتا دنیا بہت چھوٹی اور اللہ کا خزانہ بہت وسیع ہے۔

والد صاحب کے خدمت کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ہی پرورش پائی اور جب خود اس قابل ہوا کہ کسی کے کام آ سکوں تو سب سے پہلے بعد از موت اپنے اعضا عطیہ کرنے کی رجسٹریشن کروائی اور امید ہے کہ لواحقین میری اس خواہش کو لازمی پورا کریں گے اس کے علاوہ بھی میرے استعمال میں جو کچھ بھی کسی کے کام آ سکے وہ مستحقین میں تقسیم کر دینے کی وصیت ہے۔ بات کچھ طویل ہو رہی ہے لیکن اپنی بات کا پس منظر بتانے کے لیے یہ سب لکھنا بھی میری نظر میں ضروری تھا والد صاحب سے ایک بات کی معذرت چاہتا ہوں کہ جو کچھ آپ نے میرے بارے سوچا جو آپ مجھے بنانا چاہتے تھے وہ میں بن نہ سکا اور جو میں اپنی مرضی سے بننا چاہتا تھا وہ بھی میں نہ بن سکا ویسے تو والدین کی دعاؤں سے اللہ کا شکر ہے لیکن اگر ان کی خواہش کو پورا کرتا تو یقین ہے کہ معاشرے میں بہتر مقام ملتا اس کے باوجود کے آپ کی بات نہ مان سکا والد صاحب اس پر رنجیدہ تھے لیکن پھر بھی کامیابی کی دعا ہی کی۔

یہ تو ایسا معاملہ تھا جو میرے ساتھ تھا لیکن جو معاملات خاندان کے ہر فرد کے ساتھ مشترکہ طور پر تھے ان کو اپنی ذات کی حد تک جس سطح پر بھی اپ کی خواہش کے مطابق پورا نہیں کر سکا اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اس کے لیے نہ تو دلائل اور نہ وضاحت کا سہارا لوں گا بس معافی کا طلب گار ہوں آپ کی جانب سے معافی ہو گی تو اللہ کے ہاں معافی ملے گی وگرنہ تو نہ یہ زندگی کسی کام کی اور نہ ہی اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے بچ پاؤں گا۔

مجھے یاد ہے کہ ہر سال جب آپ کی سالگرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا تو اپ کتنے مسرور ہوتے تھے اور اپنے کو ملنے والے تحائف کو بڑے شوق سے کھول کر دیکھتے اپریل دو ہزار چار میں اپنی زندگی کی آخری سالگرہ پر تو آپ ہمارے ساتھ دیر تک جاگتے رہے باتیں کرتے رہے حالانکہ آپ کی طبعیت ناساز تھی پھر بھی آپ اپنے خاندان کے ساتھ اپنی بیماری کی تکلیف کو بھلا کر خوش ہو رہے تھے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ دو ماہ بعد جون میں یہ خوشیاں غم میں تبدیل ہو جایں گی اور ہمارے گھر ہی نہیں ہر اس شخص پر قیامت ٹوٹ پڑے گی جو آپ کے ساتھ منسلک تھا اب بھی اپ کی سالگرہ منائی جاتی ہے لیکن نہ تحفے ہیں اور نہ تحفہ لینے والے ساتھ ہیں یہ کیسی سالگرہ ہوتی ہے جہاں خوشی کم اور غم میں بہتے آنسو زیادہ ہوتے ہیں اور پھر غم کی اسی لہر میں ہر سال جون میں آپ کی برسی زندگی کے سانسوں کی ترتیب کو ڈگمگا دیتی ہے۔

آج بھی ایسی ہی کیفیت میں گرفتار ہوں اور اس برسی پر آپ سے زندگی میں ہونے والی غلطیوں پر معافی کا طلب گار ہوں لیکن ساتھ ہی آپ کی دعاؤں سے اس بات پر خوش بھی ہوں کہ خدمت کے جس جذبے کی آپ نے بنیاد رکھی وہ جذبہ میری اہلیہ اور جان سے پیاری بیٹیوں میں منتقل ہو چکا ہے اور اپنی بساط کے مطابق انسانیت کی خدمت کے لیے تیار رہتی ہیں مجھے یقین ہے کہ تینوں بیٹیاں جہاں بھی ہوں گی وہ خدمت کے سلسلے کو جاری رکھیں گی کیونکہ فلاح کا راستہ ہی اللہ کی خوشنودی کی طرف جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments