کیا پاکستان غیر آئینی قومی حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے


ملک معاشی لحاظ سے تباہی کے گڑھے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں ملک پر مسلط ہونے والی حکومت مسلسل اپنی بے بسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ خسارے کا بجٹ ہے جس میں مسلح افواج کو ’طاقتور‘ بنانے کے لئے تو دفاعی مصارف میں ساڑھے گیارہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے لیکن ملک کے غریب عوام کو کوئی ریلیف دینا ممکن نہیں تھا۔

نہ جانے کس لقمان نے یہ نادر روزگار تصور پیش کیا تھا کہ ایک لڑکھڑاتی اور ناکام ہوتی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لاکر عمران خان جیسے عاقبت نا اندیش شخص کو ایک بار پھر ہیرو بننے کا موقع دے دیا جائے اور اقتدار سنبھالنے والا وزیر اعظم کبھی لاہور کی عدالت سے ضمانت میں توسیع کے لئے حاضر ہو، کبھی ایوان صدر کے مکین کی طرف دیکھے کہ اہم قانون سازی یا معمولات حکومت انجام دیے جا سکیں اور باقی ماندہ وقت جی ایچ کیو کی طرف سے اس اطمینان کے انتظار میں بسر کرے کہ کہیں وہاں سے موجودہ انتظام کی روانگی کا اشارہ نہ دے دیا جائے۔

بظاہر تو ہمارے وقت کے سب سے ’زیرک‘ سیاست دان آصف علی زرداری کے دانشمندانہ جوڑ توڑ کی وجہ سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد منظور ہوئی اور شہباز شریف کو وزارت عظمی سونپی گئی۔ لیکن یہ کارنامہ انجام دیتے ہوئے نہ تو کسی قسم کا پارلیمانی ہوم ورک کیا گیا اور نہ ہی معاشی و سیاسی مسائل حل کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی ہوئی۔ خاص طور سے جب کہ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملکی معیشت تباہ کر دی تھی جس کی وجہ سے تمام ’محب وطن‘ سیاسی پارٹیوں کو مل کر ’آئینی طریقہ‘ سے اس حکومت کو ختم کرنے کا اہتمام کرنا پڑا تاکہ ملک کو مکمل تباہی سے بچایا جائے۔ اب جب کی زمام اقتدار شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے اور ان کی رہنمائی کرنے کے اختیارات نواز شریف اور آصف زرداری کے پاس ہیں تو بھی ملکی معیشت کی گاڑی مسلسل ہچکولے کھا رہی ہے۔

دو ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ آثار واضح نہیں ہیں کہ ملک کو درپیش ادائیگیوں کے مسائل اور عوام کی غذائی اور توانائی کی ضروریات کو کیسے پورا کرنا ہے۔ اس کا انحصار آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے ہونے پر ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پوری نہ ہو سکیں تو ملک کو ڈیفالٹر ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ایک بار کوئی ملک کسی عالمی قرض پر سود و قسط کی ادائیگی میں ناکام رہے تو پھر یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ وسائل حاصل کرنے کے باقی ماندہ راستے بھی مسدود ہونے لگتے ہیں اور افراط زر، کساد بازاری، احتیاج اور قحط کے آثار پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اسی لئے پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کا ذکر کرتے ہوئے ہر معاشی ماہر سری لنکا کی مثال دیتا ہے جو حال ہی میں دیوالیہ ہوا اور اب وہاں کے عوام ہمہ قسم اشیائے صرف حاصل کرنے کے لئے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کرنے کے بعد متعدد بیانات اور انٹرویوز میں واضح کیا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط نہیں ملتی، اس وقت تک کسی بھی دوسرے ذریعے سے کوئی وسائل حاصل ہونے کی امید نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے نئے بجٹ میں سخت مالیاتی پالیسی اختیار کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن ابھی بجٹ قومی اسمبلی سے منظور نہیں ہوا کہ سرکاری حلقوں میں منی بجٹ لانے کی سرگوشیاں شروع ہو چکی ہیں۔

وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ اقتصادی ترقی، مالیاتی استحکام اور مالیاتی تخمینے کو خطرات لاحق ہیں۔ بجلی کے شعبے کے نقصانات کی بنیادی وجوہات میں زیادہ پیداواری لاگت، مہنگی ٹیکنالوجیز اور ناقص ڈیزائن معاہدے شامل ہیں۔ اس پالیسی کے نتیجے میں نجی سرمایہ کاروں کے بے تحاشا منافع کے سبب قرض کی ادائیگی، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے بلوں کی وصولی اوسط سے کم ہو گئی ہے۔ ملک میں ابھی تک بجلی چوری کرنے کے مسئلہ پر قابو پانے کا کوئی جامع منصوبہ بھی نہیں بنایا جا سکا۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ان تمام عوامل کے نتیجے میں حکومتی سبسڈی کا سب سے بڑا وصول کنندہ توانائی کا شعبہ ہے۔ پاکستان کو کئی مالیاتی خطرات کا سامنا ہے اور ایسے خطرات کے ممکنہ منفی اثرات پر قابو پانے یا ان کو کم کرنے کے لیے کوششوں کی ضرورت ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل میں روس یوکرائین جنگ سے پیدا ہونے والے حالات کے علاوہ قومی سیاسی بے یقینی کی کیفیت اہم ترین مسئلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے باوجود ایک طرف اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے لوگ وزارتوں اور عہدوں میں حصہ لینے یا ضمنی و آئندہ انتخابات میں کسی پارٹی کا ٹکٹ ’پکا‘ کروانے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں لیکن ملکی معیشت کے ڈوبتے جہاز کو کیسے کنارے لگانا ہے، اس کی ذمہ داری وزیر خزانہ یا وزارت خزانہ کو سونپ کر باقی ماندہ حکومت دیگر ’مسائل‘ سے نمٹنے کے لئے جد و جہد بلکہ ’جہاد‘ میں مصروف ہے۔ دوسری طرف حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد عمران خان اور ان کی پارٹی نے مسلسل ایسی سیاسی انارکی پیدا کی ہے جس میں موجودہ حکومت مکمل طور سے ناکام ہو جائے۔ کوئی بھی اپوزیشن کسی بھی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں ضرور حائل کرے لیکن جب معاملہ قومی سلامتی، عوامی بہبود اور ملک کی عالمی شہرت، رتبہ و حیثیت تک پہنچ جائے تو پھر باہمی سیاسی اختلافات ختم کر کے ملک کو بچانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی جاتی ہے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن یکساں طور سے شدید مالی بحران کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس بحران سے نکلنے کی کوشش کرنے کی بجائے الزامات کی بوچھاڑ میں ’اصل ذمہ دار‘ کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اتحادی حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ اگر معیشت کی تباہی کا عذر تراش کر اس نے عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے پاس ان مسائل سے نمٹنے کا کوئی بلیو پرنٹ ضرور ہو گا۔ باہمی صلاح و مشورہ کے علاوہ عالمی روابط سے ایسے وعدے حاصل کرلئے گئے ہوں گے کہ فوری مسائل سے نمٹنے کے لئے وسائل مہیا ہو جاتے اور پھر ان ضروری مالی اقدامات پر توجہ دی جاتی جن سے ملکی درآمدات و برآمدات میں فرق کو کم کیا جاسکتا اور قومی آمدنی میں اضافہ کے ٹھوس اور قابل عمل فیصلے کیے جاتے۔ صرف غریبوں کی بہبود کے ضروری منصوبے ترک کرنے یا اہم ترین ترقیاتی مصارف کو ختم کرنے پر ہی اکتفا نہ ہوتا بلکہ سرکاری مشینری میں انفرادی سہولتوں کی فراہمی پر صرف ہونے والے وسائل میں کمی کا کوئی واضح حکم جاری ہوتا۔ اگر عالمی قیمتوں کی وجہ سے ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ لازمی تھا تو حکومت یہ اعلان بھی کرتی کہ وہ ان حالات اپنے کسی ملازم اور عہدیدار کو مفت پیٹرول یا بجلی فراہم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ جو ملک اپنا دفاع کرنے کے لئے بھی دنیا سے قرضہ لینے پر مجبور ہو چکا ہے، اس کی اشرافیہ کو کیسے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مصارف کے لئے قومی خزانے پر بار بنے رہیں۔ بلکہ سہولتوں کی بارش صرف حاضر سروس حکومتی عہدیداروں، بیوروکریسی، ججوں، فوجی افسروں اور دیگر سہولت کاروں کو ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ عہدوں سے علیحدہ ہو جانے کے بعد بھی یہ لوگ سیکورٹی سمیت متعدد دیگر مالی سہولتوں کے حقدار رہتے ہیں۔ آج ہی عثمان بزدار نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر مراعات حاصل کرنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے۔ صرف اس ایک وقوعہ سے قومی بے حسی اور سیاسی تصادم کی بدترین کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ملک کی کئی نسلیں ’پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ کا سبق پڑھتے ہوئے جوان ہوئی تھیں۔ اب یہ عالم ہے کہ پاکستان اگر تین سے چار ہزار ٹن گندم درآمد نہیں کرتا تو اس ملک میں رہنے والوں کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوگی۔ پاکستان قرضوں پر چلنے والا ملک ہے لیکن روس سے گندم خریدنے کے لئے نقد ادائیگی لازمی ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل ملک کی سب سے اہم صنعت اور برآمد کنندہ ہے لیکن ٹیکسٹائل انڈسٹری چلانے کے لئے کپاس درآمد کرنا پڑتی ہے۔ آج ہی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ تاریخ ساز کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی قیمتیں ایک ہزار پوائنٹس سے زیادہ گر گئیں۔ زرمبادلہ کے شعبہ سے منسلک لوگوں نے میڈیا انٹرویوز میں بتایا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی کمپنیاں اپنا منافع ملک سے باہر بھجوا رہی ہیں جبکہ برآمد کنندگان جو ملک کو زر مبادلہ فراہم کرنے کے نام پر حکومت سے بے پناہ مالی مراعات لیتے ہیں، اپنی آمدنی بیرون ملک سے پاکستان واپس کرنے میں تساہل برت رہے ہیں تاکہ بجٹ کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی وہ یہ وسائل منتقل کریں۔ یہی ہمارا قومی مزاج ہے۔ اسی نام نہاد ’جذبہ‘ کو قومی حمیت کا نام دے کر عمران خان پاکستانی عوام کو حقیقی آزادی دلانے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی سازش سے لے کر روس سے سستا پیٹرول خریدنے کے حوالے سے متعدد جھوٹ عوام کو ازبر کروائے ہیں۔ اس دروغ گوئی سے پیدا ہونے والی مشکلات طویل عرصہ تک ملک کی مالی و سفارتی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنیں گی۔

شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ آئینی طریقے سے منتخب اسمبلی کی مدد سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لاکر خود وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ دیوار پر لکھا سچ یہ ہے کہ انہی عناصر نے شہباز شریف کی پیٹھ تھپتھپائی تھی جو عمران خان کو بوجھ سمجھ کر ان سے گلو خلاصی چاہتے تھے۔ اب وہی عناصر کنارے پر بیٹھے سیاسی قوتوں کی چومکھی کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور ملک کو اس بحران سے نکالنے کے کسی ایسے طریقے پر غور کر رہے ہیں جس سے ان سیاست دانوں سے ایک طویل عرصہ کے لئے جان چھڑائی جا سکے۔ ایک حل مارشل لا لگانے کا آزمودہ طریقہ ہے۔ موجودہ عسکری قیادت شاید اتنا ’بولڈ‘ اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی اس لئے ممکن ہے قومی حکومت نام کے کسی مبہم متبادل پر کام ہو رہا ہو۔ اس تجویز یا تصور کے تحت ایک خاص مدت کے لئے ایسی ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کی جا سکتی ہے جو کسی کو ’جوابدہ‘ نہ ہو اور تین یا چار سال کی مقررہ مدت میں ملکی معیشت کے بارے میں سخت اور مشکل فیصلے کرے، عالمی اداروں اور ’دوست ممالک‘ کو مطمئن کرے اور ملک میں امن و امان بحال کرنے نا سبب بنے۔

پاکستانی آئین میں ایسے کسی انتظام کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم اگر اس بارے میں حتمی فیصلہ کر لیا گیا تو ملک کی سپریم کورٹ وسیع تر قومی مفاد میں آئین کی کسی نئی تشریح کے ذریعے ایسا کوئی راستہ فراہم کر سکتی ہے۔ ایسے انتظام کو فوج اور عدلیہ کی بالواسطہ آمریت ہی کہا جا سکے گا۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے سوشل میڈیا متحرک حب وطن میں سرشار عناصر کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جمہوریت اور عوامی حکمرانی کا مقدمہ خود سیاسی پارٹیوں نے خراب کیا ہے۔ پھر تین ماہ یا ڈیڑھ سال میں دو تہائی اکثریت لے کر ملک کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھنے والے ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر ایک نئے انتظار پر مجبور ہوں گے۔ اس دوران وہ بدستور یہ طے کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ کون بڑا ملک دشمن اور غدار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments