عاصمہ شیرازی کا کالم: غلامی میں آزادی کیسی؟

عاصمہ شیرازی - صحافی


عمران خان
نعروں سے پیٹ بھرتا تو دُنیا صرف نعرے ہی لگا رہی ہوتی۔ سچ تو یہ ہے کہ نعروں سے نہ تو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے اور نہ ہی اناج کی منوں بوریاں جن کی ہمیں اس وقت اشد ضرورت ہے۔

پنجابی زبان کی ایک کہاوت یہاں برمحل لگتی ہے جس میں ایک خاتون کو ’ولی‘ قرار دیا جاتا ہے جو ایک رات قبل ہی اپنی ’گمشدگی‘ کی پیشگوئی کر دیتی ہے۔

آج کل غذائی کمی کی خبر سناتے اور غیر ملکی غلامی کی تصویر دکھاتے سابق وزیراعظم عمران خان کی تقاریر سُن کر یاد آتا ہے کہ ملک کے معاشی حالات کا جو منظر نامہ اپنی حکومت کے رخصت ہوتے ہی وہ پیش کر رہے ہیں دراصل اُنھی کو معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔

اُن کی ناک کے عین نیچے سے گُزرنے والے حقائق اور اُن کے وزیر خزانہ کی آنکھوں کے سامنے لہرانے والے اعداد و شمار حالات کا پیش منظر بخوبی بیان کر رہے تھے مگر کیا کرتے کہ انھوں نے تمام پیش گوئیاں حکومت کے خاتمے کے بعد کے لیے سنبھال رکھی تھیں۔

یہ سوال بار بار حکومتی نمائندوں سے پوچھا جاتا ہے کہ جناب آپ کو معلوم تھا کہ معاشی بحران ہے، ملک دیوالیہ ہونے کے درپے ہے، آئی ایم ایف کو منانے کے لیے پیٹرول کی قیمتوں کو بڑھانا ناگزیر ہے تو ایسی کیا پڑی تھی کہ حکومت گرائی اور یہ سب عذاب اپنے سر لے لیا۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ یا تو عمران خان صاحب خوش نصیب تھے یا پیش منظر سے آگاہ کہ ہم نہیں تو کوئی نہیں؟

حالیہ بجٹ کے بعد اب جب مہنگائی کا طوفان سونامی بنا کھڑا ہے، موجودہ حکومت، سابقہ حکومت کے حصے میں آنے والی ممکنہ مغلظات کا سامنا کر رہی ہے اور بظاہر سابقہ حکومت کے ساڑھے تین سال کا ملبہ اس دو ماہ کی حکومت پر گرتا نظر آ رہا ہے تو یہ سوال زبان زد عام ہے۔

اپوزیشن رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ انھیں حالات کا بخوبی اندازہ تھا لیکن یہ فیصلے سیاسی اور معاشی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے کیے گئے۔

شہباز شریف، بلاول

فروری کے اوائل میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو ماڈل ٹاون ظُہرانے پر تشریف لے گئے۔ یہ ملاقات حیران کُن بھی تھی اور اچانک بھی۔۔۔ وجوہات پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کی رخصتی اور اُس کے بعد کی الزامات کی سیاست تھی تاہم ان دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ روایتی حریف نہ صرف ایک صفحے پر آئے بلکہ استعفوں کی سیاست پر اڑی کھڑی اور نون لیگ بھی عدم اعتماد کے لیے رضامند دکھائی دی۔

اس ملاقات میں اُس وقت کی حکومت کی فوری رخصتی کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف اس فیصلے پر تن من دھن سے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے ہم نوا ہوئے۔

وجوہات بہت سی تھیں مگر سب سے بڑی وجہ عمران خان کی اقتدار کی طوالت کی منصوبہ بندی اور ممکنہ وہ ’ایک صفحہ‘ تھا جو کم از کم آئندہ دس سال کی سیاست کو بدل کر رکھ سکتا تھا۔ یہ خدشہ بھی پیش نظر تھا کہ ممکنہ ایک صفحے کی صورت کے ذریعے آئین سے چھیڑ چھاڑ کا راستہ فراہم ہوتا اور آئندہ انتخابات کے نتائج دو تہائی بنانے کی ترکیب، صدارتی نظام، اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے سمیت کئی بحرانوں کا شاخسانہ ثابت ہو سکتی تھی۔

ایسی صورت میں اپوزیشن رہنما جیلوں میں بند ہوتے اور یکطرفہ انتخابات کا انتظام کیا جاتا جس کی مثال سنہ 2018 میں سامنے آ چکی تھی۔ بہرحال ایسے وقت میں عدم اعتماد ہی غیر مقبول حکومت کو ختم کرنے میں کار آمد ثابت ہوتی، لہذا راوی بتاتا ہے کِہ سیاسی رہنماؤں کو یہ کڑوا گھونٹ پینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

دوسری جانب معاشی ماہرین اب برملا کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگست سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں واضح کمی آنا شروع ہو گئی تھی اور جنوری میں ہونے والی آئی ایم ایف ڈیل کو چند ہفتے بعد ہی سابق وزیراعظم نے توڑ ڈالا۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم پڑھیے

’سازش‘ کے بیانیے کے مقابلے میں حکومت کا ’بےدم‘ بیانیہ

انقلاب کا یو ٹرن: عاصمہ شیرازی کا کالم

اور مجھے یوں نکالا: عاصمہ شیرازی کا کالم

مہنگائی، احتجاج

حالیہ بجٹ کے بعد اب جب مہنگائی کا طوفان سونامی بنا کھڑا ہے اور بظاہر سابقہ حکومت کے ساڑھے تین سال کا ملبہ اس دو ماہ کی حکومت پر گرتا نظر آ رہا ہے

پیٹرول کی قیمتوں میں دس روپے کمی کر دی گئی جو آئی ایم ایف شرائط کی واضح خلاف ورزی تھی۔ سابق حکومت جانتی تھی کہ آنے والی حکومت اس کا خمیازہ بھگتے گی لہذا ملک کی بجائے محض سیاسی مفاد مدنظر رکھا گیا۔ اس معاشی بحران کا ذمہ بھی حکومتی اتحاد نے اپنے سر لیا اور یوں اب انھیں اس کی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑے گی۔

مشکل وقت میں مشکل معاشی فیصلے حکمران اتحاد کو غیر مقبول کر رہے ہیں تاہم اس میں ایک بڑا کردار موجودہ اتحاد کی روایتی سیاست اور سماجی سطح پر عوام سے رابطوں کی کمی بھی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس سوشل میڈیا کا ہتھیار موجود ہے تاہم حکمران اتحاد اس سے نابلد۔۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور براہ راست عوام سے رابطوں کا فقدان حکمران اتحاد کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

عوام سے دوری ہی دراصل وہ بارودی سُرنگ ہے جو معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔

نعروں کے فریب سے نکل کر اب اصل راہنمائی کی طرف آنا ہو گا۔۔ عوام کو بتانا ہو گا کہ حقیقی آزادی کیسے حاصل ہو سکتی ہے جبکہ ہم آئی ایم ایف کی شرائط کے غلام ہیں۔ سب بیچنے والے آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔

بقول احمد ندیم قاسمی۔۔۔

بارشیں تو یاروں نے کب کی بیچ ڈالی ہیں

اب تو صرف غیرت کی راکھ ہے ہواؤں میں

تم ہمارے بھائی ہو، بس ذرا سی دوری ہے

ہم فصیل کے باہر ، تم محل سراؤں میں

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی

تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments