نواز شریف کی متنازع ٹویٹ کے پیچھے چھپی گہری چال


ابھی کل چودہ جون 2022 کو میاں نواز شریف نے مندرجہ ذیل ٹویٹ کی ”میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں۔ نہیں چاہتا کہ اپنے پیاروں کے بارے میں جو صدمے مجھے سہنا پڑے، وہ کسی اور کو بھی سہنا پڑیں۔ ان کی صحت کے لیے اللہ تعالی سے دعاگو ہوں۔ وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔“

میاں صاحب نے ٹویٹ کیا کی، ان کے پکے حامی بھی ان پر ٹوٹ پڑے۔ طرح طرح کے اعتراض ہونے لگے۔ طرح طرح کے اعتراضات ہونے لگے۔ ”آپ اپنے مجرم کو تو معاف کر سکتے ہیں، لیکن ریاست کے مجرم کو کیسے معاف کر سکتے ہیں۔ جو ستر ہزار لوگ دہشت گردی میں مارے گئے، اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا اور بلوچستان آج تک سلگ رہا ہے، لال مسجد میں مارے جانے والے، گوانٹانامو میں بھیجے جانے والے کیا جنرل مشرف کو معاف کرتے ہیں؟ کیا ریاست اس شخص کو معاف کر سکتی ہے جو آئین شکنی کے نتیجے میں دو مرتبہ ریاست سے سنگین غداری کا مرتکب ہوا ہو؟ کیا آپ نے مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ اپنا ذاتی انتقام لینے کے لیے بنایا تھا یا ریاست کے خلاف جرم اس کی وجہ تھا؟“ ایسے ہی بے شمار الزامات کی موسلا دھار بارش برسنے لگی۔

یہ الزامات عائد کرنے والے کیا میاں نواز شریف کو جانتے نہیں؟ اونٹ کا کینہ ضرب المثل ہے، ہاتھی کا بدلہ مشہور ہے، لیکن میاں نواز شریف کو جاننے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں صاحب کی یادداشت کے سامنے ان دونوں کی یادداشت کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ میاں صاحب بھولتے نہیں ہیں۔ اس تناظر میں اگر میاں صاحب کی ٹویٹ پر غور کیا جائے تو ایک حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب نے بغاوت کے مقدمے میں مفرور پرویز مشرف کو پاکستان لانے کے لیے اتنی گہری چال چلی ہے کہ ان کے حامی تک دھوکہ کھا گئے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف بغاوت کا مقدمہ قائم ہونے کے بعد عدالت میں پیش ہونے سے کتراتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ زیادہ ہی مجبوری پیش آئی تو عدالت جانے کے لیے ہٹے کٹے چلتے پھرتے گھر سے نکلے لیکن، کرنل محمد خان کے الفاظ میں بیان کیا جائے تو نیوی گیشن کی غلطی کی وجہ سے امراض دل کے ہسپتال جا پہنچے۔ پھر وہاں سے ڈوبے تو دبئی میں طلوع ہوئے۔ اور واپس آنے پر وہ ہرگز تیار نہیں تھے کہ یہاں آتے تو ان کا مقدمہ بالکل واضح تھا، سنگین غداری کے جرم میں پھانسی گھاٹ ان کا منتظر تھا۔

اب میاں صاحب نے جنرل پرویز مشرف کو واپس لانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی حکومت کو سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے، تو یہ بات واضح ہے کہ وہ دانہ ڈال رہے ہیں کہ اڑتا پنچھی نیچے اترے تو ان کے دام میں گرفتار ہو۔ واہ میاں صاحب واہ۔ سیاسی چالیں آپ پر ختم ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ جنرل مشرف کا جہاز جیسے ہی دبئی سے اڑے گا، تو نواز شریف دوبارہ اسی پھرتی سے اپنی چالیں چلیں گے جیسے انہوں نے اکتوبر 1999 میں چلی تھیں۔ جہاز اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترے گا تو شہباز سپیڈ سے ائرپورٹ پر ہی بنایا گیا پھانسی گھاٹ ان کا منتظر ہو گا۔ یوں کسی عدالت میں پہنچ کر حکم امتناع یا ضمانت لینے سے پہلے ہی سزا پر عمل درآمد کر دیا جائے گا۔ ہم نے ایک فلم میں دیکھا تھا کہ خطرناک دشمن کو بے خبری میں مارنے کے لیے ٹریپ ڈور بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہوائی جہاز کی پہلی سیڑھی ہی ایسا ٹریپ ڈور ہو، جیسے ہی جنرل مشرف اس پر قدم دھریں تو وہ اپنی سزا پا لیں۔

میاں نواز شریف کی چال تو واقعی بہت گہری ہے۔ بس میاں صاحب ایک بات کا خیال رکھیں۔ پچھلی مرتبہ انہوں نے اڑتے جہاز سے چھیڑ خانی کی تھی تو وہ انہیں بہت مہنگی پڑی تھی۔ ایک مرتبہ پھر سوچ لیں کیونکہ بڑے بڑے لوگ کہہ رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی اپنی سرزمین پر واپسی میں رکاوٹ نہیں ڈالی جانی چاہیے۔ کہیں ایک مرتبہ پھر اڑتے جہاز سے پنگا لینا مہنگا نہ پڑ جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments