برقعہ کالا ہی کیوں؟


 

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سال کے بارہ مہینوں میں سے آٹھ مہینے موسم گرم رہتا ہے۔ اور ان میں سے بھی پانچ مہینے آخیر گرمی پڑتی ہے۔ شمال کے کچھ علاقوں اور بلوچستان کے بعض شہروں کے علاوہ باقی سارا ملک ان دنوں تپتا ہے۔ بقول میر صاحب کے بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر۔ اور یہ شدت ہر گزرتے سال کے ساتھ زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ چرند، پرند، انسان اور پودے پینتیس ڈگری سے اوپر بے چین ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں تھرما میٹر چالیس کا ہندسہ کراس کرتا ہے۔ توں توں دم نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ پرندے اور انسان محدود ہو کر رہ جاتے ہیں اور پھول، پودے مرنے لگتے ہیں۔ سورج یوں سروں پر چمکتا ہے کہ کوئی بھی جاندار دن میں باہر نکلے، تو اس کی تپش اور حرارت سے سانسیں اٹکنے اور بدن بہنے لگتے ہیں۔

ہم پودوں کو بچانے کے لئے سایہ بناتے ہیں۔ سبز جالی تانتے ہیں۔ پرندوں کے لئے کٹورے بھر بھر صحن اور چھت پر رکھتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروندے بڑے درختوں کی شاخوں کے نیچے لٹکاتے ہیں تاکہ موسم سے بے حال اللہ کی یہ مخلوق چاہے تو آرام کر لے۔ انسان ہلکے رنگوں کے کپڑے استعمال کرتے ہیں۔ سفید رنگ زیادہ نظر آنے لگتا ہے۔ شربت، اسکنجبین، سلاد، رائتے کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ بھاری کھانوں سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ غرض ہر چیز بدلتی ہے۔ موسم کی سختی کو سارے حیلے بہانوں، طریقوں اور ٹوٹکوں سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اگر نہیں بدلتا تو وہ ہے کالا برقعہ یا عبایا۔

ہمارے ملک میں خواتین کی آبادی کا دس فیصد تو ضرور برقعہ پہنتا ہے۔ جسے عبایہ یا گاؤن بھی کہتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے کم و بیش سارے ہی شہروں مثلاً وہاڑی، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، ڈیرہ غازی خان، لودھراں، میلسی، ساہیوال میں اکثر بچیاں، لڑکیاں اور عورتیں اسکول، کالج، نوکری یا گھر سے باہر جس بھی کام سے نکلیں، اسے پہنتی ہیں۔ اور زیادہ تر اس کا رنگ کالا ہی ہوتا ہے (اگرچہ اب اس میں تھوڑی تبدیلی بھی نظر آتی ہے ) ۔

کیا ہماری خواتین کو گرمی نہیں لگتی یا کالے برقعے ہیٹ رسسٹنٹ ہیں؟ یا یہ کہ اے۔ سی سے نکل کے ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھو اور جب مطلوبہ منزل پر اترو تو وہ بھی سنٹرلی کول۔ تو جناب! سبھی باتیں ہی ٹھیک نہیں۔ گرمی تو اس عورت مخلوق کو بھی لگتی ہے اور بے تحاشا لگتی ہے۔ جو بالوں سے ٹخنوں تک نچڑتی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ نہ تو حضرت مرد کی طرح گھروں کے اندر دھوتی، بنیان، برمودا یا شارٹس کے ساتھ پھر سکتی ہے اور نہ گھر کے باہر بے حجاب (یہاں عمومی رجحان پر بات ہو رہی ہے ) وجہ کوئی بھی ہو۔ بہرحال باہر جاؤ تو مزید تہہ برقعے کی اوڑھو اور وہ بھی کالا۔ شاید کچن میں کام کرتے کرتے وہ اس سختی کی عادی ہو گئی ہے اور تھوڑی بے حس بھی۔ وگرنہ پردہ تو کسی رنگ میں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ جناب بھی چل سو چل۔

اور دوسری طرف سائنس کہتی ہے کہ کالا رنگ اور کپڑا سب سے زیادہ سورج کی روشنی اور شعاعوں کو جذب کرتا ہے۔ اور کم سے کم منعکس کرتا ہے تو خود سوچیں جو کوئی بھی اس رنگ کو موسم گرما میں اوڑھتا اور پہنتا ہے، خود کو جھلساتا ہے۔ اور برقع پوش صنف نازک تو اپنے اندر تندور جلائے پھرتی ہیں۔ اوپر سے کپڑا بھی لان اور کاٹن نہیں (کیونکہ اس کے اور بہت سے سیاپے ہیں۔ ) بلکہ جارجٹ، مکس یا کوئی اور ریشمی مٹیریل یعنی سونے پر سہاگہ۔ آتش جہنم کا پورا انتظام ہے۔

ایک تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ برقعہ چونکہ پردے کی خاطر پہنا جاتا ہے تو اس کے لئے کالا رنگ زیادہ موزوں کیونکہ یہ رنگ کسی اور کو اور بالخصوص صنف مخالف کو کم متوجہ کرتا ہے۔ لیکن اگر اسی کالے برقعے پر موتیوں اور کڑھائی والے کام دلکش رنگوں سے بنے ہوں۔ اگر یہی برقعے تافتان، انگرکھا، یا فراک کے انداز میں سلے ہوں۔ سر پر اسکارف اور نقاب طرحدار ہو تو چھپے رہنے اور کم نمایاں ہونے کے لئے صرف کالا رنگ مدد نہیں کرے گا۔ کیونکہ کالے رنگ کو چار چاند تو خود بخود لگ گئے۔

ایک خیال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کالے رنگ کا برقعہ اس لئے بھی پہنا جاتا ہے کہ یہ خاندان یا اس علاقے کی ایک روایت بھی ہے۔ یعنی نسل در نسل یونہی ہوتا آیا ہے۔ نانیاں، دادیاں، مائیں، بہنیں، بہوئیں اور بیٹیاں اسی رنگ میں خود کو کور کر کے نکلتی ہیں۔ اگر برس ہا برس سے کسی کو سخت گرمی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا تو آگے بھی راوی چین ہی چین لکھے گا۔

تو جناب گزارش یہ ہے کہ جس طرح اب ماحولیاتی تبدل سے کرہ ارض پر غیر متوقع حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح خط استوا سے قریب ممالک میں بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اور اگر آپ ان خطوں میں رہتے ہیں جن کو ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ کہتے ہیں تو وہاں پر موسم اور زیادہ خفا ہیں۔ کیونکہ یہاں پر موسم کی غیر معمولی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے نہ حکومتیں سنجیدہ ہیں اور نہ عوام ہوش مند۔ تو جب سبھی غافل ہیں تو سورج تو آگ اگلے گا اور بارشیں نہ برسنے کی قسم کھا لیں گی۔ ادھر آپ کی بھی مجبوری ہے اپنا گھر، شہر اور ملک روز روز تو نہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ:

کالے رنگ کے علاوہ ہلکے رنگوں کے برقعہ رواج میں لائیں۔ جس میں ڈیزائنرز کا بڑا حصہ ہے۔

خواتین خود بھی اس تکلیف کو محسوس کریں اور بچیوں کو بھی سکھائیں کیونکہ سب سے پہلے وہی ہیں جو اپنی بات اور عمل سے دوسروں کو احساس دلا سکتی ہیں کہ وہ انسان ہیں اور موسم کی شدت ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔

مرد حضرات سے امید ہے کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو اس آسانی کی طرف لائیں کیونکہ جب آپ ہر وقت بنیان اور شارٹس میں پھرنا چاہتے ہیں تو گھر سے باہر نکلتی اپنی عزیز عورت کیوں نظر نہیں آتی؟ جس طرح سربراہ ہو کر اور بہت سی منواتے ہیں۔ اس کو بھی کر وائیں۔

بھلے پرانی بزرگ خواتین کالا برقعہ ہی پہنتی رہی ہوں، آپ پر لازم نہیں کہ ایسا کریں۔ کیونکہ آج سے تیس سال پہلے نہ تو گرمی کا ایسا طوفان ہوتا تھا اور نہ پاکستان میں خواتین کا گھر سے باہر جانا اتنا زیادہ۔ کچھ بے جا پابندیوں کے ختم ہو جانے میں ہی عافیت ہے۔

خود کو ڈھانپنا، اور دینی یا ثقافتی عقیدوں پر پردہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ کرنے والوں کا حق ہے اور ہمہ جہت معاشرے ہر رہنے والے کے عقائد اور روایات کی تکریم کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ خواتین موسم گرما میں کالے برقعے کی بجائے کسی اور رنگ کا عبایہ زیب تن کریں گی تو نہ تو آپ کی عقیدت پر سوال اٹھے گا اور نہ رسم و رواج پر۔ ہاں آپ خود بہت بہتر محسوس کریں گی۔ اس سے آپ کی زندگی میں آسانی آئے گی۔ اگر یقین نہ آئے تو کر کے دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments