ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر آپ پر بھی پڑے گا چاہے آپ ڈیزل استعمال کرتے ہوں یا نہیں


فائل فوٹو
ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے
یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں پیٹرول کی قیمت میں اضافے نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کر دی ہے اور مہنگائی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے جس سے دنیا کی بہت سی معیشتیں متاثر ہو رہی ہیں۔

لیکن پیٹرولیم سے حاصل ہونے والا ایک اور ایندھن ہے جو اور بھی مہنگا ہو گیا ہے جون میں اس کی قیمت تاریخ میں اس کی اب تک سب سے بلندی پر پہنچ گئی ہے اور یہ مسئلہ پیٹرول سے بھی بڑا سر درد پیدا کر رہا ہے۔ یہ ڈیزل ہے، جسے ڈیزل یا گیس آئل بھی کہا جاتا ہے۔

ماہرین کو تشویش ہے کہ اس کی قیمت میں اضافہ اس لیے ہوا کیونکہ عالمی سطح پر ڈیزل کی قلت ہے اور مختصر مدت میں ان قیمتوں کو کم کرنا مشکل ہوگا۔

پاکستان میں بھی بدھ کو رات گئے ڈیزل کی قیمت میں 59 روپے اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت 264 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔

آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ آپ کے پاس کار نہیں ہے، یا آپ کے پاس کار تو ہے لیکن یہ پیٹرول پر چلتی ہے۔

تاہم اگر آپ نے اپنی زندگی میں کبھی ڈیزل کا استعمال نہیں کیا ہے، تب بھی آپ جہاں کہیں بھی ہوں گے یہ بحران آپ کی جیب کو متاثر کرے گا۔

ایسا کیوں؟

کیونکہ ڈیزل زیادہ تر کارگو گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور ہماری خوراک، ادویات یہاں تک کہ وہ پیٹرول جو ہم سروس سٹیشنوں پر اپنی کاروں میں بھرتے ہیں ڈیزل سے چلنے والے ٹرکوں کے ذریعے ہی آتا ہے۔ یہی ڈیزل ٹرک سامان ان بحری جہازوں تک پہنچاتے ہیں جو پوری دنیا میں اس کی ترسیل کرتے ہیں۔

بہت سی بسیں اور ٹرینیں بھی ڈیزل ہی استعمال کرتی ہیں۔

اور یہ وہ ایندھن ہے جس پر صنعتیں انحصار کرتی ہیں چاہے وہ کھیتوں میں چلنے والا ٹریکٹر ہی کیوں نہ ہو۔

اس وجہ سے ڈیزل کی کمی پوری دنیا میں سنگین مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اگر طلب رسد سے زیادہ ہوتی رہی تو قیمتیں اور بڑھنے کا خطرہ ہے۔

فائل فوٹو

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ڈیزل بھروانے کے لیے قطاریں

عالمی بحران

اس ایندھن کی کمی سری لنکا، یمن اور کئی افریقی ممالک جیسی جگہوں پر ٹرانسپورٹ کے مسائل کا باعث بن رہی ہے۔

ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر ایکواڈور میں مقامی برادریوں اور کسانوں کی طرف سے احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔

ایک اور خطہ جہاں بحران کے سبب تشویش پائی جاتی ہے وہ یورپ ہے۔

دنیا کے دوسرے حصے میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے برعکس یہاں پرائیویٹ کاروں کے بہت سے ڈرائیور ڈیزل کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے توانائی کا زیادہ مؤثر اور کم آلودگی پھیلانے والا ذریعہ ہے۔

روس کے یوکرین پر حملہ کرنے سے پہلے یورپ نے روس سے خام تیل کا تقریباً دو تہائی حصہ درآمد کیا جس کی ریفائننگ سے ڈیزل حاصل ہوتا ہے۔

لیکن مغرب کی طرف سے ماسکو پر عائد اقتصادی پابندیوں کے بعد یورپ اپنے ڈیزل کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کر رہا ہے۔

اگرچہ اس سے قلت کم ہوئی ہے، لیکن بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف ریکارڈ قیمتوں کے ساتھ لوگوں کی جیبوں پر بُرا اثر پڑا ہے۔

’عام آدمی اشرافیہ کی ناکامی کی قیمت کیوں ادا کرے؟‘

کیا آئندہ بجٹ تک پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں مستحکم رہ پائیں گی؟

دنیا سے موازنہ صرف تیل کی قیمت کا ہی کیوں، قوتِ خرید اور مہنگائی کا کیوں نہیں؟

فائل فوٹو

ڈیزل زیادہ تر کارگو گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن ہے

آج برطانوی اپنی کار کو بھرنے کے لیے 100 پاؤنڈ سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔ امریکہ میں ٹرک ڈرائیور ڈیڑھ ڈالر فی لیٹر ادا کرتے ہیں جو اس ملک میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ قیمت ہے۔

‘کچھ ریاستوں میں قیمتوں میں اضافہ اتنا زیادہ ہے کہ ٹرک چلانے والوں کو لوڈ کرنے کے لیے جیب سے ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے اور بہت سے لوگ اپنے سفر کا انتخاب سوچ سمجھ کر کر رہے ہیں۔‘

فارچیون میگزین نے مئی کے وسط میں رپورٹ کیا تھا کہ ’کچھ چھوٹی ٹرک کمپنیاں اجرت ادا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور زیادہ لاگت کی وجہ سے کام کو کم کرنے یا یہاں تک کہ بند کرنے پرغور کر رہی ہیں۔‘

وال سٹریٹ جرنل کا کہنا تھا ’قیمتیں بڑھنے سے اخراجات خاص طور پر چھوٹے ٹرکوں کی کمپنیوں کو متاثر کر رہی ہیں جو امریکی ٹرک مارکیٹ کا بڑا حصہ ہیں۔‘

ارجنٹائن میں قلت

امریکی براعظم کے دوسرے سرے پر ڈیزل کی قلت مزید افراتفری پیدا کر رہی ہے۔

وسطی اور شمالی ارجنٹائن کے راستوں پر ڈیزل کے لیے ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں، جس کی فروخت بہت سی جگہوں پر 20 لیٹر فی گاڑی تک محدود کر دی گئی ہے۔

ارجنٹائن فیڈریشن آف فریٹ ٹرانسپورٹ بزنس اینٹیٹیز کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جون کے اوائل میں ارجنٹائن کے 23 میں سے 19 صوبوں میں سپلائی کے مسائل ہیں۔

بیونس آئرس میں بی بی سی ورلڈ کی صحافی ویرونیکا سمنک کا کہنا ہے کہ ’ڈیزل کی کمی سے ارجنٹائن کی بیمار معیشت کو ان نازک لمحات میں مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اس کے نتیجے میں بھاری فصل اناج اور تیل کے بیجوں کی کاشت، جیسے سویا بین، مکئی اور سورج مکھی، بھی متاثر ہوں گی جو ملک کی سب سے بڑی برآمدات میں شامل ہیں۔

فائل فوٹو

ڈیزل ارجنٹائن میں کٹائی اور بوائی کے لیے ضروری ہے

سمنک نے وضاحت کی کہ ڈیزل کی کمی ارجنٹائن میں مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ دنیا بھر میں سپلائی کی کمی میں مقامی عوامل شامل ہیں جس نے صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔

ملک میں استعمال ہونے والے ڈیزل کا تقریباً ایک تہائی حصہ درآمد کیا جاتا ہے اور یوکرین میں جنگ کے اثرات کی وجہ سے تیل کمپنیوں کے لیے نہ صرف اسے حاصل کرنا زیادہ مشکل ہو گیا ہے بلکہ حکومت کی جانب سے عائد کردہ کم مقامی قیمتوں کی وجہ سے موجودہ قیمتوں پر اسے درآمد کرنا بھی ان کے لیے منافع بخش نہیں ہے۔

بحران کی دیگر وجوہات

ڈیزل کے غائب ہونے کی واحد وجہ روسی حملہ نہیں ہے۔

ولادیمیر پوتن کی جارحانہ کارروائی سے پہلے فروری کے آخر میں ڈیزل کی عالمی طلب پہلے ہی سپلائی سے زیادہ ہو گئی تھی۔

ماہرین کے مطابق اس عدم مطابقت کی سب سے بڑی وجہ کورونا وائرس کی وبا تھی۔

سنہ 2019 اور 2020 میں قرنطینہ کی وجہ سے معیشت کا پہیہ رکا اور ایندھن کے استعمال میں کمی آئی جس کی وجہ سے ریفائنریز نے اپنی ڈیزل کی پیداوار کو کم کر دیا، یہاں تک کہ کچھ نے اپنے دروازے مستقل طور پر بند کر دیے اور دوسروں نے صاف اور زیادہ ماحول دوست ذرائع کی طرف منتقلی کے لیے قابل تجدید ایندھن کو بہتر بنانے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

فائل فوٹو

وینزویلا ڈیزل کی کمی کا شکار ہونے والے پہلے ممالک میں سے تھا

سنہ 2021 میں جب دنیا کُھلنی شروع ہو رہی تھی تو ڈیزل کی مانگ تیزی سے سپلائی سے زیادہ بڑھ گئی۔

اس مسئلے میں اضافے کا ایک سبب کمرشل پروازوں کا تیزی سے دوبارہ شروع ہونا تھا، کیونکہ جیٹ فیول ڈیزل جتنے خام تیل سے بنایا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے معاشی تجزیہ کار جان کیمپ نے خبردار کیا کہ بڑھتی ہوئی مانگ نے شمالی امریکہ، یورپ اور ایشیا کے بہت سے ممالک کو اپنے ڈیزل کے ذخیرے کو ختم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یورپ اور امریکہ میں 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد سٹاک اپنی کم ترین سطح پر آ گیا۔

امریکی حکومت کے ایک اہلکار نے مئی کے آخر میں نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ صدر جو بائیڈن ڈیزل کے ہنگامی ذخیرے کے استعمال کے آپشن پر بات کر رہے ہیں جو ملک کے شمال مشرق میں دو دہائیوں پہلے بنایا گیا تھا اور اب تک صرف ایک بار استعمال کیا گیا ہے۔

حکومت کا بنیادی مقصد کم قیمتوں پر ایندھن کی سپلائی کو بڑھانا ہو گا جس کے سبب امریکہ میں گذشتہ چار دہائیوں کی سب سے زیادہ مہنگائی ریکارڈ ہوئی ہے، جو نومبر میں ہونے والے کانگریس انتخابات میں حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ شمال مشرق کے ہنگامی ذخیرے کو بازار میں لانے کے اثرات محدود ہوں گے کیونکہ 10 لاکھ بیرل ڈیزل مارکیٹ میں لانا قیمتوں کو کم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا ۔

معیشت

معیشت پر اثرات

اُنھوں نے کہا ’ڈیزل کی عالمی قلت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ معاشی سائیکل اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے اور پیداوار کے مطابق کھپت کو واپس لانے کے لیے سست ترقی یا یہاں تک کہ کساد بازاری کا دور یقینی ہے۔‘

رواں ہفتے پیش ہونے والی ورلڈ بینک کی تازہ ترین اقتصادی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ترقی میں تیزی سے سست روی دیکھی جا رہی ہے، اور خبردار کیا گیا ہے کہ اس سے ’جمود‘ پیدا ہو سکتا ہے جس میں ایک طرف کم اقتصادی نمو ہوتی ہے تو دوسری طرف مہنگائی بلند سطح پر ہوتی ہے۔

ورلڈ بینک گروپ کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے 7 جون کو رپورٹ کا اجرا کرتے وقت کہا ’کئی ممالک کے لیے کساد بازاری سے بچنا مشکل ہو گا۔‘

ورلڈ بینک کا اندازہ ہے کہ 2022 میں عالمی معیشت کی نمو 2.9 فیصد رہے گی، جو کہ 2021 میں پہنچی ہوئی شرح کا نصف (5.7 فیصد) ہے۔

اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) نے اس سال کے لیے اپنی عالمی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کو ساڑھے چار فیصد سے کم کر کے تین فیصد کر دیا، اور تخمینہ لگایا کہ اس کے 37 رکن ممالک میں اوسطاً سالانہ شرحِ مہنگائی ساڑھے آٹھ فیصد رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments