سر بسجود – مرکزی خیال ماخوذ


راحت۔ راحت اٹھو نماز پڑھ لو، ٹائم نکل رہا ہے۔ تیسری بار اجمل نے جگایا تو میں نے بیزاری سے چادر خود پر سے اتار دی۔ یا اللہ! اس شخص کو ہر ایک کی آخرت سنوارنے کا اتنا خیال کیوں رہتا ہے۔ میں نے کھلے بالوں کو جوڑے کی صورت لپیٹا اور باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ آج بھی میں نے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا بس کل جہاں کے لئے خوشیاں مانگ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ گڑیا کو یونیورسٹی کے لئے تیار ہونے کا کہہ کر میں کچن میں آ گئی۔

پرات میں پھیلے ہوئے آٹے کو میں نے پانی ڈال کر یکجا کر دیا لیکن پھر نا جانے کیا ہوا نرم ملائم آٹے کو گوندھتے مجھ میں اتنی شدت آ گئی کے مکیوں کی بجائے میں نے پیڑھ کو مکے مارنے شروع کر دیے لیکن چند لمحوں بعد ہی میں بری طرح ہانپنے لگی ایسے جیسے میلوں کا سفر بھاگ کر طے کرنے والا ہانپنے لگتا ہے۔ سامنے کھڑی گڑیا مجھے حیرت سے تک رہی تھی بعد میں ناشتہ کرتے ہوئے اجمل کو ہنس ہنس کر بتانے لگی بابا آج ماما آٹے سے لڑ رہی تھیں۔ اجمل نے حیرت سے سرسری نگاہ مجھ پر ڈالی۔ کچھ دیر بعد بولے یہ کیا سر جھاڑ منہ پہاڑ بنائے پھرتی رہتی ہو کچھ اپنا حلیہ ٹھیک کرو۔ میں بس انہیں دیکھ کر رہ گئی۔

یا اللہ! کتنی جلدی خیال آ جاتا ہے اس شخص کو میرا۔ اجمل اور گڑیا کے جانے کے بعد میں نے جمیلہ پھوپھو (میری پھوپھی ساس ) کے لیے ناشتہ بنایا اور ان کے کمرے میں لے آئی۔ میں نے شادی کے بعد سے انہیں ہمیشہ اسی گھر میں دیکھا تھا۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا قرآن پاک چوم کر آنکھوں سے لگایا پھر جزدان میں لپیٹ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا میں ناشتہ ان کے سامنے رکھ کر جانے لگی تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام کر روک لیا اور میرے ہاتھ کی پشت چوم لی۔

یہ عمل وہ آئے دن دہرایا کرتی تھیں میں نے بغور اس ساٹھ سالہ کنواری لڑکی کو دیکھا۔ جانے کیوں آج انہیں دیکھ کر دل میں ایک احساس ابھرا تھا کہ ساٹھ سال تک کنوارا رہنا آسان ہے یا ازدواجی زندگی کے سرد و گرم سہنا۔ خواہ وہ کوئی بھی وجوہات رہی ہوں جن کی بنا پر ان کی شادی نہیں ہو سکی لیکن مرد کے ساتھ کے لیے بے کل تو ضرور رہی ہوں گی۔ یہی سوچتی میں کچن میں آ گئی۔ کرنے کو گھر کا ہر کام ہی کرتی رہی لیکن نہ جانے کیوں کچھ عرصے سے طبیعت میں بیزاری اور جھنجھلاہٹ رہتی ہے اعصاب کھچاوٹ زدہ اور بدن تھکا تھکا سا رہتا ہے۔

سوائے اللہ سے اور کسی سے بات کرنے کا دل نہیں چاہتا۔ جب بھی اپنے آس پاس دیکھتی ہوں تو سب کچھ پاتی ہوں جینے کو جو ضروری سامان چاہیے ہوتا ہے وہ سب کچھ میسر ہے ہر رشتہ موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر ان نعمتوں پر خدا کا شکر بھی ہے لیکن پھر بھی میرے اندر کوئی خلش ہے کوئی کمی ہے جو مجھے کاٹتی رہتی ہے بے چین رکھتی ہے مگر اس بے چینی بے کلی کا تدارک مجھے سمجھ نہیں آتا۔

دوپہر میں اجمل آ گئے وہ ایک پرائیویٹ کالج میں لیکچرار ہیں دن کا کھانا کھانے کے بعد قیلولہ کرنا ان کی ہمیشہ کی عادت ہے۔ ڈائننگ ٹیبل سمیٹ کر میں کمرے میں آئی تو وہ داہنا ہاتھ گال تلے رکھ کر سو رہے تھے۔ پیروں کے قریب پڑا تولیہ اٹھاتے نگاہ ان کے چہرے پر پڑی تو پھر پلٹ نا سکی۔ میں ان کے بالکل قریب بیٹھ گئی۔ یا اللہ! اجمل کتنے بدل گئے ہیں بیس سال پہلے والے چہرے میں اور اس چہرے میں کتنا فرق تھا جوانی والی شادابی اور رنگت میں گھلا گلابی پن تو جیسے غائب ہو چکے تھے جلد ڈھیلی پڑ چکی تھی آنکھیں کچھ کچھ اندر کو دھنس گئی تھیں اور ایک دو چھوٹے چھوٹے مسے بھی پپوٹوں پر ابھر آئے تھے میں نے بے خیالی میں ان کا چہرہ چھوا تو انہوں نے کسمسا کر کروٹ بدل لی۔

میں اٹھ کر باتھ روم میں آ گئی آئینے میں نگاہ پڑی تو حیران رہ گئی شاید میں نے خود کو بھی بہت دنوں بعد دیکھا تھا روکھے الجھے ہوئے بال، آنکھوں کے گرد حلقے، گوری رنگت ماند پڑ کر پیلاہٹ میں بدل گئی تھی جلد کا تناؤ ختم ہو چکا تھا اور ہونٹ بالکل سوکھے ہوئے۔ یا اللہ! میں خود بھی تو وہ نہیں رہی ہوں لیکن کیا جو کسک میرے اندر ہے وہ اجمل کو بھی تڑپاتی ہے۔ شاید نہیں۔ میں خود ہی خود کو جواب دے کر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی۔

شام کی چائے پی کر اجمل اکیڈمی چلے گئے میں کھانا پکا کر فارغ ہوئی تو جمیلہ پھوپھو میرے پاس آ بیٹھیں۔ راحت خود پر توجہ دیا کرو خود سے لاپروا عورتیں مرد کے دل سے اتر جاتی ہیں نہاؤ، اچھا لباس پہنو سرخی پاؤڈر لگاؤ، خوشبو لگاؤ۔ لہسن پیاز اور مصالحوں کی بو میں بسی عورت مرد کو نہیں بھاتی۔ ہاتھ میں مہندی لگایا کرو مہندی مرد کو متوجہ کرتی ہے۔ میں نے انہیں حیرت سے دیکھا اور پھر دھیرے سے ہنستی دی۔ میں کون سی نوبیاہتا تھی جو مجھ سے ایسی باتیں کی جاتیں اب تو میری بیٹی بیاہنے کی عمر کو پہنچ گئی تھی۔ جانے آج انہیں کیا ہو گیا تھا۔ یا اللہ! ایک کنواری عورت یہ باتیں کیسے کر سکتی ہے یا پھر شاید ان کا تخیل بہت قوی ہو گیا تھا۔ میں نے الماری کھولی اور سبز رنگ کا لباس نکال لیا سبز رنگ اجمل کا من بھاتا رنگ ہے آج بہت دنوں بعد ایک ارمان دل میں جاگا کہ اجمل کو بھرپور طریقے سے چونکا دوں۔

رات ان کے آنے سے پہلے بال بنائے آنکھوں کے ہلکے غازے سے چھپائے لپ سٹک اور خوشبو بھی لگائی لیکن جب وہ آئے تو بس یہ پوچھا کہیں جا رہی ہو یا کہیں سے آ رہی ہو۔ میں حیرت سے انہیں دیکھ کر رہ گئی۔ یا اللہ! کیا چہرے کی طرح اجمل کے محسوسات بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ کھانے کے دوران وہ گڑیا سے باتیں کرتے رہے۔ بابا ماما کو دیکھیں ایسا نہیں لگ رہا جیسے ماما پھر سے جوان ہو گئی ہیں اس کے کہنے پر اجمل نے دلچسپی سے بھرپور ایک نگاہ میرے وجود پر ڈالی اس لمحے میں نے سوچا

یا اللہ! کاش اجمل کو احساس ہوتا کہ میرے وجود کو ان کی نگاہوں کی کتنی ضرورت ہے۔ کھانا کھا کر وہ کتنی دیر ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ ان کا روزانہ کا معمول ہے پر آج میں چاہتی تھی کہ بس وہ مجھے دیکھیں اس لیے جلدی جلدی سب کچھ سمیٹ کر ان کے پاس جا بیٹھی لیکن ان کی نگاہیں ٹی وی پر ہی جمی رہیں۔ میں نے آہستہ سے ان کے بازو پر ہاتھ رکھا اور دھیرے دھیرے اپنے وجود کی حرارت پوروں کے ذریعے ان کے وجود میں اتارنے لگی۔

اوں ہوں! نا کرو یار، بہت عرصے بعد سین کونری کی کوئی فلم لگی ہے۔ میں نے پوروں کو سمیٹ لیا لیکن آنکھوں میں بھر آنے والی نمی کو سمیٹ نہیں سکی اسی لیے چپ چاپ ان کے پاس سے اٹھ آئی۔ یا اللہ۔ یا اللہ۔ ہمیشہ جو میرے اندر اللہ سے بات کرتا تھا آج وہ بھی چپ ہو گیا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ ٹی وی بند کر کے بیڈ روم میں آ گئے۔ نیم تاریکی میں وہ میری آنکھوں کی کہانی پڑھ ہی نہ سکے۔ چند لمحوں بعد ان کے گرم ہاتھ کا دباؤ کاندھے پر محسوس کیا تو دل چاہا ان کا ہاتھ جھٹک دوں پر میں چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکی رات کے آخری پہر مجھ میں وہ بیدار ہو گیا جو چپکے چپکے اللہ سے باتیں کیا کرتا ہے۔ میں نے سر سجدے میں رکھ دیا۔ یا اللہ! اجمل تو تھک کر سو گئے ہیں اور میں آج بھی جیت کر جاگ رہی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments