سیاست میں بدتہذیبی کا بڑھتا ہوا رجحان


کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستانی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہے کہ یہ کسی اچھائی اور بھلائی کے احساس سے خالی، قاصر اور کسی اصول اور ضوابط سے ناآشنا ہیں۔ کھوکھلے شخصیت کے مالک سیاستدان بس اندھے مفادات کے اسیر ہیں اور ہمیشہ ہی سے بیساکھیوں کے محتاج رہا کرتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب یہ اضافہ بھی بہت درست لگا کہ پاکستانی سیاست کے آنکھوں میں حیا بھی باقی نہیں رہی۔ جب حیا ہی رخصت ہو جاتی ہے تو پھر کسی بھی خرابی کا در آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہا کرتی۔ اس کا لازمی مظہر بداخلاقی اور بدتہذیبی ہی ہوا کرتا ہے۔

پارلیمنٹ میں دنگا فساد ہو، ٹاک شوز میں کتوں کی طرح لڑائی کا منظر ہو یا عوامی اجتماعات تک میں گالیوں، اور مغلظات کا بکنا ہو۔ ایسے بد تہذیبی، بد اخلاقی اور بدتمیزی کے مظاہر دیکھنے کو ملنا اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ بعض اہل دل اس پر مضطرب اور پریشان دکھائی دیتے ہیں اور تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ۔

بابا،
اس میں حیرانی کی کیا بات ہے برتن سے وہی کچھ گرتا ہے جو اس میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔
جنھیں ووٹ سے نوازا جاتا ہے اور جن کے لئے تالیاں پیٹی جاتی ہے، یہ بڑے کون ہیں؟

اکثر یہ ان خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں جو اپنے علاقے کے ”با اثر“ ہیں یعنی حجروں کے مالک ہیں، قطعات ان کی ملکیت ہیں اور لچر لفنگے ان کے دلال ہیں۔ درجنوں ٹوپک مار جو دراصل اجرتی قاتل، راہزن، لٹیرے اور بدکردار ہوتے ہیں ان کے گارڈز ہوتے ہیں کہ یہ با اثر ان کی جرائم کے محافظین ہوتے ہیں۔

یہ ”با اثر و معززین“ دراصل قابضین، متکبرین اور بدمعاش ہوتے ہیں۔ انسانوں کو لڑوانا اور انھیں اپنا باج گزار رکھنا ان کی نفسیات ہوتی ہیں۔

کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ”اسٹیبلشمنٹ“ کے پروردہ ٹولوں کے کارندے ہوتے ہیں جو کریمنل مائنڈڈ ہوتے ہیں اور احساس محرومی لئے جب انھیں بے لگام چھوڑا جاتا ہے تو وہ رعب جھاڑنے میں بہت اگے نکل کر بھتہ خور، فاشسٹ اور قاتل بن جاتے ہیں۔

اس مرتبہ کچھ خاص کر دکھانے کی خاطر تو اسٹیبلشمنٹ صاحب نے بہت ہی خاص قسم کے لوگوں کا اکٹھ کر کے اپنی طاقت دکھائی۔

اکثریت۔

سیاسی بہرے، خاندانی محروم، معاشرتی پسماندہ، تہذیبی اجڈ، اقداری عاری، آدابی کورے، سراب کے جنونی، ”نظام کے باغی“ اور اخلاقی حالت۔ خستہ، پستہ۔

ان سے کسی تہذیب، تمیز، شائستگی اور شرافت کی توقع رکھنا اپنی جگہ سادگی ہی نہیں بلکہ وقوفی بھی ہے۔
یہ تو صاحب کی بوئی ہوئی فصل ہے جو برگ و بار لائی ہے۔
( الزامات، گالیاں، جھوٹ طنز و مذاق، تحقیر، بازاری زبان۔ )
بھائی صاحب،

یہ جو سب مشہور اور معروف سیاسی جماعتیں کہلاتی ہیں یہ درحقیقت سیاسی کلب ہیں جہاں نہ خود جمہوریت ہے اور نہ معروف معنوں میں سیاست۔ بس یہ چند لوگوں اور خاندانوں کی پراپرٹیاں ہیں جہاں ان کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہے۔

ایسے میں جب نہ کسی کی سیاسی تربیت ہے اور نہ اخلاقی تو توقع کیا کی جا سکتی ہے؟
یہی بداخلاقی، بے شرمی، بدتمیزی اور بدتہذیبی کے مظاہر دیکھنے کو ملیں گے۔

باقاعدہ یہ پلاننگ کی جاتی ہے اور ڈیوٹی لگائی جاتی ہے کہ کس کتے نے کون سے کتے سے کاٹنا ہو گا۔ یعنی کون کس کو بے توقیر کرے گا۔

جو جتنا چرب زبان اور بد تہذیب ہوتا ہے وہ اتنا ہی پارٹی لیڈر کا محبوب ٹھہرتا ہے۔

اسمبلی اجلاس اور ٹاک شوز کے دوران باقاعدہ لیڈر اپنے کارندوں کو ایس ایم ایس کیا کرتے ہیں کہ کیا بولنا ہے اور کس طریقے سے حریف کو زچ کرنا ہے۔

کارندوں کو تھپکی اور شاباش بھی ملتی ہے۔

سوشل میڈیا پر باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے جو طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا ہے اس نے تو تمام حدیں ہی پار کر دیں۔ سیاسی پارٹیوں کے ”گالی برگیڈ“ تشکیل دیے ہیں جنہیں باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی، فنڈنگ کی جاتی ہے اور ڈائریکشن دی جاتی ہے۔ ٹرینڈ پہ ٹرینڈ چلا کر جھوٹ اور پروپیگنڈا کا طوفان ہے جس میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ باقاعدہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا ایک ہتھیار ہے اور اس کا استعمال ایک سائنس ہے۔ جو جتنا اس کے استعمال کا ماہر ہے اتنا ہی وہ معاشرے پر اثر انداز ہے۔ ستم اور المیہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اپنی کسی اچھائی کی تشہیر نہیں کہ بھلائی سے تو ہر کسی کا دامن یکسر خالی ہے، بلکہ مخالفین پر الزامات لگانا، جھوٹ گھڑ لینا، بہتان لگانا اور اسے بدنام کرانے کے لئے ہر ہر حربہ استعمال کرنا۔ جعلی اکاؤنٹس کی بھر مار ہیں جس سے جاری کردہ بیانات کر رینج لاکھوں میں ہوتی ہے۔

کہنا یہ ہے کہ جھوٹ، بداخلاقی اور بدتہذیبی کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لئے تخلیق اور تشہیر کیا جاتی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ یہ باقاعدہ ایک کلچر کی صورت دھار چکا ہے جس کے اثرات معاشرے اور ووٹرز کے روؤں اور طرزعمل پر بھی پڑتے نظر آرہے ہیں۔ بہت ہی کم محنت کے ساتھ اسے سراب کے پیچھے لگانا کوئی مشقت طلب کام نہیں رہا۔ سیاست ہی کیا پورا معاشرہ احساس، تہذیب، شعور اور اچھائی سے محروم ہوتا جا رہا ہے جس کا احساس نہ ہونا اپنی جگہ بہت بڑا المیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments