پیٹرول پھر بڑھ گیا


موجودہ حکومت نے ایک بار پھر سے پبلک پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مہنگائی کا بم گرا دیا ہے جس کے بعد اب پیٹرول کی نئی قیمت 235 روپے ہو گئی ہے، پیٹرول کی قیمت بڑھتے ہی بسوں، ٹیکسیوں، سمیت تمام ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے اگر کسی کو تکلیف ہے تو وہ ہے غریب پبلک جو چوہتر سالوں سے اس مہنگائی کا رونا رو رہی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو نا تو پہلے کبھی پبلک کی کوئی فکر تھی اور نا ہی اب ہے جس کی وجہ سے ایک ماہ کے اندر پیٹرول 84 روپے فی لیٹر بڑھ گیا ہے۔

لگ یوں رہا ہے کہ صرف پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر ہی پبلک کو مارا جائے گا کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات بڑھنے سے ہر چیز آٹومیٹک بڑھ جاتی ہے اور اس کا براہ راست اثر پبلک پر ہی پڑتا ہے۔

موجودہ اتحادی حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو یہ ہی کہہ رہے تھے کہ پیٹرول کی قیمتیں اتنی بڑھائی جا رہی ہیں جس سے پبلک مہنگائی کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے مگر اب یہ خود کیا کر رہے ہیں؟

گزشتہ چوہتر سالوں سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سے قرضے تو اربوں ڈال کر کی صورت میں اٹھائے گئے ہیں مگر اس سے پبلک کو کیا رلیف ملا ہے، پبلک تو آج بھی صاف پانی پینے سے محروم ہے، صحت کی سہولیات نہیں ہیں، تعلیمی معیار ہے کہ دن بہ دن خراب ہوتا جا رہا ہے تو پھر آخرکار یہ قرضہ کس کے لئے لے رہے ہیں اور کس پر خرچ ہوتا ہے اگر پبلک کے نام پر لیا جا رہا ہے تو اس پر خرچ کیوں نہیں ہوتا اور اگر نہیں تو پھر پبلک پر ٹیکسز لگا کر جینا کیوں محال کیا ہوا ہے۔

آخرکار پبلک کا قصور کیا ہے جس کو پاکستانی حکمرانوں کی صورت میں پاکستان پر عذاب نازل کیا ہوا ہے کیوں پبلک کا کوئی نہیں سوچ رہا۔

مجھے یاد ہے نوری آباد ونڈ پاور پلانٹ پر جانے کا اتفاق ہوا تھا چند سال قبل وہاں پر موجود ایک ذمے دار افسر نے بتایا تھا کہ ہم نے حکومت کو آفر دی تھی کہ فی یونٹ چار روپے میں ہم سے لیں لیکن حکومت نے چار روپے والا یونٹ تو نہیں لیا الٹا 16 روپے فی یونٹ فیصل آباد سے خریدا، حیرت ہوتی ہے کہ پھر یہ پبلک کا ہی رونا روتے ہیں کہ ہمیں پبلک کی فکر ہے اگر یہ فکر ہے تو اس سے تو ایسے ہی اچھا ہے۔

گزشتہ روز صبح سے ہی سوشل میڈیا پر پیٹرولیم مصنوعات بڑھانے کی باتیں چل رہی تھیں کہ پیٹرول بڑھ رہا ہے جس کے بعد ملک بھر کے تمام پیٹرول پمپس پر ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں پیٹرول پمپس پر پیٹرول بھروانے کے لئے رکی ہوئی تھیں، پھر اچانک سوشل میڈیا پر ہی ٹویٹ چلے کے پیٹرولیم مصنوعات بڑھانے والی اوگرا کی سمری وزیر اعظم شہباز شریف نے مسترد کردی ہے پھر رات کو بارہ بجتے ہی پتا چلا کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور ایک ساتھ پیٹرول پر 24 روپے اور ڈیزل پر 59 روپے بڑھ گئے ہیں۔

مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب پبلک سانس کے لئے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے اتنی مہنگائی کبھی نہیں ہوئی جنتی ان چند دنوں میں ہوئی ہے مگر ہمارے حکمران ہیں کہ کبھی کہتے ہیں کہ مرغیاں پالو اس سے انڈے ملیں گے تو معیشت اچھی ہوگی، کوئی کہتا ہے کہ چائے مت پیئیں اس سے معیشت مستحکم ہوگی یہ کیا مسخری لگائی ہوئی ہے حکمرانوں نے پبلک کے ساتھ کبھی ان ہی حکمرانوں نے اپنے اخراجات کم کرنے کی کوشش کی ہے؟

مین دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ بھی پتا نہیں ہو گا کہ چینی کہا سے ملتی ہے پیاز کہاں سے ملتا ہے اور کتنے کتنے پیسوں کا ملتا ہے۔

ائرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر غریب پبلک کے فیصلے کیے جاتے ہیں جس پر ان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس بے بس غریب اور لاچار پبلک پر کیا گزرتی ہے، ایک شخص جو پورا دن مزدوری کرتا ہے اس کو صرف شام کے ٹائم پر چار سو روپے ملتے ہیں جو ناکافی ہیں اس سے تو صرف ایک کلو آٹا اور دودھ ہی مشکل سے مل سکتا ہے مگر حکمران ہیں کہ ان کو اس غریب پبلک کا کوئی درد نہیں ہے بس کوئی درد ہے تو وہ اپنا ہے کہ کس طرح سے ان کے بینک بیلنس ٹھیک ہو سکے اور ان کی انکم میں کس قدر بہتری آ سکتی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، سننے میں آ رہا ہے کہ مزید پیٹرولیم مصنوعات بڑھیں گی اگر حکمرانوں ایسے ہی پبلک کو مارنا ہے تو پھر پبلک کے دردوں کی باتیں کرنا بند کر دیں تاکہ پبلک کو اس بات کا کوئی احساس نا ہو کے وہ ایسے معاشرے میں جی رہیں ہیں جہاں پر ان کے حقوق کی کوئی بات ہو رہی ہے یہ صرف دکھاوا ہے دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

مانا کہ دنیا میں اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں مگر دنیا میں اگر پیٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں تو وہاں پر پبلک کو دیگر سہولیات فراہم ہیں جس کی وجہ سے ان کو پیٹرولیم مصنوعات بڑھنے سے اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا پاکستانی پبلک پر پڑتا ہے کیونکہ یہاں پر تو بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔

پورے ملک میں گھوم کر دیکھیں سڑکوں کی حالت انتہائی زار ہے صحت کی بات کی جائے تو صحت کی سہولیات نہیں ہیں تعلیم کی بات کی جائے تو تعلیمی معیار انتہائی ناقص ہے ایسے میں پبلک کو کہاں جائے جس ملک میں مہنگائی اتنی ہو کہ بندہ صرف کھانے پینے کی سوچ میں ہی ڈوبا رہے اس ملک میں ترقی کہاں سے ہوگی پبلک کھانے پینے کے سوا اور کیا سوچ پائے گا؟

اب تو لگ یوں رہا ہے کہ پبلک میں مزاحمت کرنے کی جرات بھی نہیں رہی ہے نہیں تو جس طرح سے مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور ہر چیز پبلک کی دسترس سے دور ہوگی ہے اس میں تو انقلاب آنا چاہیے، لوگ سڑکوں پر نکل پڑیں لیکن نہیں کیونکہ پبلک ایک وقت کی روٹی کے لئے ہی ترس رہا ہے تو وہ ان باتوں پر کیوں سوچے گا کہ سڑکوں پر نکلیں اور اپنے حقوق کی بات کریں۔

کہا جا رہا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کریں گے تو ڈالر کی قیمت نیچے آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا ڈالر روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے، کھانے پینے کی اشیاء آسمان سے باتیں کر رہی ہے، آج جو پیٹرول کی صورتحال ہے اس کے بعد تو مہنگائی کا وہ طوفان آئے گا کہ اس کا تو صرف سوچا ہی جاسکتا ہے۔

لہذا حکمرانوں کو چاہیے کہ پبلک کو لالی پاپ دینا بند کریں اور حقیقی معنی میں پبلک کو رلیف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ پبلک کو دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments