پنجاب اسمبلی میں ایک اجلاس اِدھر، ایک اُدھر: حکومت کا آرڈیننس کے ذریعے اسمبلی کو کنٹرول کرنا درست ہے؟

ماجد نظامی - صحافی


پنجاب اسمبلی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے بجٹ اجلاس سے متعلق سیاسی کشیدگی اور ڈیڈ لاک کا خاتمہ نہ ہونے پر گذشتہ روز گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے ایوانِ اقبال لاہور میں اسمبلی اجلاس طلب کیا، جہاں پنجاب کے وزیر خزانہ سردار اویس لغاری نے 32 کھرب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کیا گیا۔

مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف میں کئی دن سے جاری تناؤ کی وجہ سے پنجاب کا بجٹ اجلاس تاخیر اور ہنگامہ آرائی کی نذر ہو رہا تھا لیکن تقریباً 48 گھنٹے کے بعد آخر کار پنجاب کا بجٹ پیش کیا گیا۔

پہلے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ حکومت اور اپوزیشن بجٹ اجلاس کے حوالے سے کسی مثبت نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔

سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کی جانب سے وزیر اعلٰی کے انتخاب کے دوران اسمبلی میں پولیس کے داخلے پر آئی جی پنجاب پولیس اور چیف سیکرٹری سے معافی کا مطالبہ رکھا گیا تھا جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔

اہم ترین پیشرفت یہ ہوئی کہ کل ہونے والے ان دونوں اجلاسوں سے پہلے پنجاب حکومت نے سپیکر اور سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے اختیارات محدود اور معطل کرتے ہوئے اسمبلی کے انتظامی امور وزارتِ قانون کے حوالے کر دیے۔

اس آرڈیننس کے اجرا کے بعد سے پنجاب اسمبلی وزارتِ قانون کے ماتحت ہو گئی اور اسمبلی کا عملہ سپیکر یا سیکرٹری اسمبلی کی بجائے وزارتِ قانون کو جوابدہ ہو گیا۔

ایوانِ اقبال میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے کی جس میں بجٹ پیش کیا گیا۔

دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے حکومتی بجٹ اجلاس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں الگ اجلاس منعقد کیا جس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے ممبران قومی اسمبلی نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں پنجاب اسمبلی کی خود مختاری ختم کرنے کے آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے قرارداد منظور کی گئی۔

اس صورتحال میں اہم سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمانی روایات کو سامنے رکھیں تو کیا کسی حکومت کی جانب سے آرڈیننس کے ذریعے اسمبلی کو کنٹرول کرنا چاہیے؟

’وزیر اعلٰی کے الیکشن کے وقت جو صورتحال پیدا ہوئی، اس کے اثرات ابھی تک قائم ہیں‘

تین مرتبہ سپیکر پنجاب اسمبلی اور تین ہی مرتبہ وزیرِ اعلٰی پنجاب رہنے والے میاں منظور وٹو نے بجٹ اجلاس پر ہونے والی بدمزگی اور پنجاب کی سیاسی صورتحال کو ’افسوس ناک‘ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’نوے کی دہائی میں جب سیاسی گرما گرمی عروج پر تھی اس وقت بھی اس قسم کی روایات سامنے نہیں آئیں۔ ان روایات کو اچھی روایات کے طور پر نہیں لیا جائے گا بلکہ اس کے منفی اثرات ہوں گے۔‘

اس حوالے سے سینیئر صحافی سلمان غنی نے ماضی قریب میں ہونے والے سیاسی واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعلٰی پنجاب کے الیکشن کے وقت جو غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس کے اثرات ابھی تک قائم ہیں۔ سیاسی تلخیوں میں کمی نہیں آ رہی۔‘

’پنجاب میں حکومت کی تبدیلی اور حمزہ شہباز شریف کے وزیرِاعلٰی بننے کے باوجود بھی چوہدری پرویز الٰہی شکست کو تسلیم نہیں کرتے نظر آ رہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حالانکہ ماضی میں چوہدری پرویز الٰہی کی معاملہ فہمی نمایاں رہی اور انھوں نے گذشتہ ساڑھے تین سال میں اسمبلی بزنس کے معاملات میں سابقہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کی مگر وزیراعلٰی پنجاب کے حالیہ انتخاب کے بعد سے صورتحال بدل چکی ہے۔‘

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے ماضی کی مثال سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’نوے کی دہائی میں پنجاب میں گورنر چوہدری الطاف حسین اور وزیراعلٰی منظور وٹو تھے جبکہ مرکز میں وزیراعظم میاں نوازشریف اور طاقتور صدر غلام اسحاق خان تھے۔‘

’ان دنوں دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور صدر مملکت کی سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج پر تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی ایسا نہیں ہوا کہ بجٹ یا کسی دوسرے معاملے پر اس طرح دو اجلاس بلائے گئے ہوں۔ اس مرتبہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہی دن دو الگ الگ اجلاس طلب کیے گئے ہیں۔‘

گورنر پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی میں آئینی اختیارات کی تقسیم؟

سپیکر اسمبلی اور گورنر کے درمیان اختلافات کی صورت میں کس کے زیادہ آئینی اختیارات ہیں؟

سلمان غنی کے مطابق آرٹیکل 109 کے تحت گورنر کے پاس یہ اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی تاریخ اور جگہ پر اجلاس بلا اور برخاست کر سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی قریب میں کورونا وبا کے دوران ایک نجی ہوٹل میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔

’یہ خالصتاً گورنر کا استحقاق اور صوابدید ہے کہ وہ کسی بھی جگہ اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتا ہے۔ اس مرتبہ سپیکر پنجاب اسمبلی کے غیر ذمہ دارانہ عمل نے آزاد اور خودمختار اسمبلی کی ساکھ کو متاثر کیا۔‘

کنور دلشاد کی رائے میں گورنر فیڈریشن کے نمائندہ کے طور پر صوبے میں کام کر رہا ہے۔

ان کے مطابق ’سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے لچک نہ دکھانے پر گورنر کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا اس لیے اس نے آرڈیننس کے ذریعے بحران پر قابو پانے کی کوشش کی۔‘

میاں منظور وٹو حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سپیکر اسمبلی کچھ کہہ رہا ہے جبکہ گورنر پنجاب کا مؤقف کچھ اور ہے۔

’اس افسوسناک صورتحال سے اسمبلی متاثر ہو رہی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آخری حربے کے طور پر آرڈیننس کو استعمال کیا لیکن یہ نئی روایت قائم کی گئی ہے جس سے حکومت کو گریز کرنا چاہیے تھا۔‘

کیا صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟

جمہوری روایت کے مطابق اصولی طور پر حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اس لیے کیا ایک ہی دن میں دو الگ الگ اجلاس ہونے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے؟

اس سوال پر سابق وزیراعلٰی پنجاب منظور وٹو کے رائے کچھ یوں ہے کہ ’حکومت اور اپوزیشن کو مل کر اس کا حل نکالنا چاہیے۔‘

ان کے خیال میں حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کوئی راستہ نکال سکتی تھی، حکومت کو ہی تعاون کا ہاتھ آگے بڑھانا چاہیے تھا۔

اس معاملے میں سلمان غنی نے چوہدری پرویز الٰہی کے موجودہ کردار سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر سپیکر پنجاب اسمبلی اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت قائم رکھتے تو یہ اجلاس سیاسی گرما گرمی کے بغیر ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ چوہدری پرویز الہی اس صورتحال سے نکلنے کو تیار نہیں۔‘

دوسری جانب کنور دلشاد نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر معاملہ زیادہ طول پکڑتا ہے تو گورنر پنجاب، سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کر سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’تمام تر تناؤ اور سیاسی کشیدگی کے باوجود پنجاب اسمبلی کے آزادانہ اختیارات کو معطل کر کے پارلیمانی روایات کو خراب کیا گیا جس کا درست تاثر پیدا نہیں ہو گا۔‘

’یہ بات درست ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی جیسے بزرگ سیاستدان سے اسمبلی میں بد تمیزی کی گئی، ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس افسوسناک حرکت کے بعد معاملات خرابی کی طرف گئے اور ابھی تک ٹھیک نہیں ہو رہے۔‘

پنجاب اسمبلی

سیاسی کشیدگی میں کمی کیسے ممکن؟

پنجاب میں سیاسی کشیدگی کی وجہ سے اسمبلی کام نہیں کر پا رہی، اس صورتحال کو کیسے کنٹرول کیا جانا چاہیے؟ اس پر سلمان غنی کی رائے میں ایسا ہونا افسوسناک ہے۔

ان کے مطابق ’میں تقریبا 35 سال سے اسمبلی کی کارروائی کی کوریج اور رپورٹنگ میں شریک رہا ہوں۔ جتنے بھی کشیدہ سیاسی حالات ہوتے اور اپوزیشن شدید احتجاج ریکارڈ کرواتی لیکن پھر بھی حکومت اور اپوزیشن بجٹ کے معاملے پر بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکال لیا کرتے تھے۔

’اس مرتبہ بجٹ جیسے سنجیدہ عمل کے حوالے سے اس غیر سنجیدگی نے جمہوری نظام پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پنجاب میں سیاسی رسہ کشی: فریقین نے اپنے اپنے ’اسمبلی اجلاس‘ طلب کر لیے

نواز شریف کے ’قریبی ساتھی‘ اور پنجاب کے نئے گورنر بلیغ الرحمن کون ہیں؟

پنجاب کی وزارتِ اعلٰی پرویز الٰہی کی جھولی میں جائے گی یا حمزہ شہباز لے اڑیں گے؟

حکومت کے پندرہ سولہ اراکین ٹوٹ گئے ہیں، چند اپوزیشن کی ’کسٹڈی‘ میں ہیں: پرویز الہی

کنور دلشاد کی رائے میں ’افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ ریاست فیڈریشن نہیں بلکہ کنفیڈریشن بن گئی ہے۔ پنجاب کی موجودہ خراب سیاسی صورتحال کے باوجود مرکز کے ہاتھ بندھے ہیں اور وہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ ایمرجنسی یا گورنر راج لگانے کی سخت شرائط ہیں جن پر پورا اترنا تقریباً ناممکن ہے۔‘

سابق سپیکر و وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’حکومت وقت کو پارلیمانی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فراخ دلی کے ساتھ کام لیتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے کیونکہ تمام تر خراب حالات کے باوجود سیاسی تنازعات کو حل کرنے کی زیادہ ذمہ دار صوبائی حکومت کی ہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments