اپنے آپ سے شادی، احساسات اور جذبات کا کیسے اختلاط ہوگا


یہ تو ہم نے یورپ کے حوالے سے سنا ہے کہ مرد نے مرد اور عورت نے عورت سے شادی کردی یا ہم ادھر اپنے دیس میں ایسی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ فلاں گاؤں میں لڑکی کی قرآن سے شادی کی گئی۔ یا یہ تو عام سی بات ہے کہ ایک شخص تمام عمر شادی کی نعمت یا زحمت کے ذائقے یا تلخی سے محروم رہا اور مجرد زندگی گزار دی یا یہ کہ ایک خاتون نے ساری زندگی مرد کی شکل یا بندھن کو یکسر نظرانداز کیا اور مردوں میں رہتے ہوئے مردوں سے لاتعلق رہی۔

یا یہ بھی ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو مندر یا گرجا گھر کی خدمت کے لیے وقف کی، اور ساری عمر علاوہ عقد یا شادی رہی۔ لیکن یہ کبھی نہیں سنا تھا کہ بھارت میں ایک چوبیس سالہ لڑکی خود سے شادی کر بیٹھ جائے گی۔ لیکن یہ بھی ہم نے سنا نہیں بلکہ سمجھو ان کی زبانی دیکھ بھی لیا، وجہ بھی بتائی اور وہی صنف امتیاز کی برہنہ سچائی۔ شادی کے وہ تمام مراسم، قریبی عزیزو اقارب کو مدعو کرنا، وہی سات پھیرے، نہ مولوی نہ پنڈت بس جو یاد تھا یا جو ریکارڈ تھا سنا کر خود سے بندھن میں بندھ گئی۔ رخصتی بھی ہوئی اور اب چاہتی ہیں کہ اپنا ہنی مون گوا میں منائے یا انجوائے کرے۔

ہم نے بندی کو خود کلامی کرتے ہوئے سنا ہے، خود کشی کرتے ہوئے دیکھا ہے، خود پرستی یا نرگسیت میں ڈوبے ہوئے افراد کو اپنے وجود کے موج بے قرار میں غوطے لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ خود غرضی، خود ستائی وغیرہ وغیرہ کی نفسیاتی مرض میں مبتلا مرد و زن سے واسطہ پڑا ہے لیکن یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایسی عورت جو خود سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہی ہے اور ہم خلوت کے جلوت میں القہ تناناھا تناناھا تناناھا یا ہو ہو رہے ہیں۔

بات یہ ہے کہ اپنے آپ کے ساتھ شادی کے محسوسات اور احساسات کا اختلاط کس قسم کے ہوں گے اور اس کو عملی جامہ کیسے پہنائے جائے گا۔ بندھن، پھیرے، دعوت اور رخصتی تو ہو گئی جو براہ راست کسی حد تک بلکہ بہت حد تک سماجی اور اجتماعی عمل تھا لیکن اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہو گا وہ سراپا ذاتی مسئلہ ہے جو وہ خود سرانجام دے گی۔ یعنی سہاگ رات کو کیسے وہ دلہن بن کر خود، خود کا انتظار کرے گی، وہ کیسے دھیرے دھیرے پلنگ پر خود کے پاس آ کر آنکھوں میں آنکھیں اور احساسات کو احساسات کے ساتھ جوڑے گا، وہ کس کمال فن و ظن سے اپنے آپ کا گھونگھٹ اٹھائے گا اور اپنے ہونٹوں کو جنبش، اور آنکھوں کو پھڑک دیکھا۔

وہ کیسے اپنے ہاتھوں کے ہتھیلی اپنے ہاتھوں کی ہتھیلی بڑے رومانس سے ہلکے ہلکے مسلے گا۔ وہ اپنے مخالف احساسات کو ”نیچی نظروں اور تیز سی سانسوں گویا ان کا بھی پیغام یہی ہے“ کو کیسے اظہار رائے کا جامہ پہنائے گا۔ وہ سہاگ رات کی رت جگے کو کیسے صبح صادق کے تڑکے میں لپیٹ کر انگڑائیاں لے گا۔ اپنے ساس، سسر، مہکے کی بعد از شادی خانہ آبادی کے دعوتوں کے سلسلے کو کیسے دوام دار اور جاندار بنائے گا۔ ہنی مون کے بعد باہم خیالی ملاپ سے اپنے گود برائی کی تصوراتی نسلی بقا کو کس نام اور کس مقام سے اپنی شناخت اور اپنی ساخت سے جڑے رکھے گا۔

دنیا والے نجی محفلوں میں وہ کہاں ہیں؟ وہ نہیں آئے وہ کیسے ہیں کے تند و تیز اور طنز بھرے سوالات کو کس طرح جوابات کے ڈھال میں بڑے پریم اور سلیقے سے وفا کی ملمع کاری سے مزین کرے گا۔ وہ کیسے دو رویا دوستیوں اور تعلقات کو ایک قالب میں سموکر فٹ فاٹ اور بڑے نپے تلے انداز میں ساختگی اور بے ساختگی سے نبھائے گا۔ وہ اپنے وراثت میں چھوڑے جانے والے اطوار کو کن کے لئے وصیت نامے کے طور پر اپنے انگوٹھے کے پور سبت اور دستخط کشید کرے گا۔

الغرض خیال اور جذبہ بہت اچھے ہوتے ہیں جب وہ خیال اور جذبہ ہی رہیں لیکن جب کسی خیال کو عملی پیراہن پہنانے یا کسی جذبے کو تعقل کے پیمانے پر ناپنے کے سعی لاحاصل ہوتی ہے تو پھر باتیں ہوتی ہیں، ۔ گردنیں اس جانب مڑتی ہیں، انگلیاں اس اوٹ اٹھتی ہیں، پھر ان سب ہجوم بے ہنگم کے غلغلے کو منہ دینے کے لئے فاعل کے ساتھ جواز شاید ہو کیونکہ جواز ہر بات کا ہوتا ہے پر جواب ہر بات کا نہیں ہوتا۔

ابھی تو گاڑی اور رولر کوسٹر سے شادی کا قصہ سنانا باقی ہے۔ ابھی تو آسٹریلیا کے میگیالانگ سے تعلق رکھنے والے خیرالانعم کا رائیس کوکر سے بیاہ اور چار دن بعد طلاق کی داستان ضبط تحریر میں لانا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments