آئندہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہوگی: زرداری


فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں شامل کرنے کا عندیہ کیا دیا کہ بزکشی کا کھیل شروع ہو گیا۔ بکرے کی طرح میدان میں گرے لسٹ کی سر کٹی لاش کیا گری سب نے سرپٹ گھوڑے دوڑانے شروع کر دیے۔ ہر کوئی کریڈٹ لینے کے چکروں میں آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ حسب دستور تحریک انصاف اپنی پاور فل سوشل میڈٰیا ٹیم کی بدولت چھا گئی کہ یہ سب کچھ اس کے دو رکے حکومتی اقدامات کی وجہ سے ہوا ہے۔ حالانکہ خارجہ امور کی وزیرمملکت حنا ربانی کھر نے ٹویٹ بھی کیا کہ فیٹف کے ایشو پر قیاس آرائیاں کرنے میں جلد بازی مت کریں مگر کون سنتا ہے لہذا جب کریڈٹ لے چکے تو فیٹف کے علانیہ کے مطابق اکتوبر میں اس کا فیصلہ ہو گا جبکہ پاکستان نے فیٹف کے تمام اعتراضات کافی حد تک دور کر دیے ہیں اور اچھی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد کریڈٹ لینے والوں کے چراغوں میں روشنی نا رہی۔ اور یوں جھاگ کی طرح بیٹھے کہ الامان الحفیظ۔

کچھ ایسے ہی جھاگ کپتان کے انقلابی پروگرام کی بیٹھی ہے۔ کپتان 25 مئی کے مارچ کی ناکامی کے بعد لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکالنے کے اعلان کے باوجود اعلان نہیں کر پا رہا۔ اپنے دور اقتدار کے زریں ساڑھے تین سال میں آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ بدست کپتان بہرحال اپوزیشن میں قومی غیرت اور عزت کا بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر بات بنی نہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے لانگ مارچ، انقلاب سکڑتا سکڑتا ٹک ٹاکرز انقلاب تک پہنچ گیا ہے۔ اب عوام کے اندر سیاسی شعور کی بیداری کی مہم ان ٹک ٹاکرز کے کندھوں پر آ پڑی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنے نرم و نازک کندھے یہ بوجھ اٹھا بھی سکتے ہیں یا نہیں تاہم ان ویڈٰیوز پر لائک کا طوفان آنے والا ہے۔ عوام کا سیلاب نا سہی لائکس کا سیلاب شاید موجودہ حکومت کو بہا کر لے جائے۔

کپتان ابھی لانگ مارچ ایک دریا کے پار اترا ہی تھا کہ اس کو ضمنی انتخاب کے ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ 17 جولائی کو پنجاب کی 20 صوبائی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے دور اقتدار میں سوائے ایک نشست کے ہر ضمنی الیکشن ہارنے والی تحریک انصاف اس بار اپنی جماعت کی جیتی ہوئی نشستیں دوبارہ جیت سکے گی یا نہیں۔ اس کا جواب قبل از وقت ہے اور یہ جواب 17 جولائی کو ملے گا۔ اگر کپتان اپنی 20 نشستیں یا اس کی نصف نشستیں بھی دوبارہ نہیں جیت سکا تو کپتان کو آئندہ عام انتخابات کے مایوس کن نتائج کے حوالے سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

رہی بات حکومتی کارکردگی کی تو سابقہ حکومت کی معاشی نا اہلی کے نام پر پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جا چکا ہے اور اتنا کچھ ہونے کے باوجود مفتاح اسماعیل مزید سخت معاشی فیصلے کرنے کی بات کر رہے ہیں خدا جانے مزید کیا کرنا باقی رہ گیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ سب کچھ بھی مزید قرضہ حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مطلب طے ہو گیا کہ قرضوں سے جان نہیں چھوٹنے والی اور غریب اور عام آدمی کی حالت اسی طرح ابتر رہے گی جیسے کہ پہلے تھی اور جیسی کہ اب ہے۔ لہذا کھیل صرف یہ ہو گا کہ ہماری مہنگائی اچھی ہے ماضی کی مہنگائی بری تھی اپنی اپنی پسند کی مہنگائی کا چکر ہے۔

مفاہمت کے بادشاہ زرداری نے لاہور میں پارٹی ورکرز سے مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب لاہور میں بیٹھ رہا ہوں اور پنجاب کے معاملات کو دیکھوں گا۔ یہ پارٹی کے حوالے سے ایک خوش آئند بات ہے کہ پیپلز پارٹی جو پنجاب میں بالکل ختم ہو کر رہ گئی تھی شاید دوبارہ زندہ ہو جائے۔ وگرنہ اب تک کی جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پنجاب میں پارٹی کی قیادت نے صرف اپنی نشستوں پر توجہ مرکوز رکھی جبکہ باقی ماندہ پنجاب میں پارٹی کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ اگر آصف علی زرداری لاہور میں بیٹھ کر پنجاب کے معاملات کو چلاتے ہیں تو نتائج کافی بہتر ہوسکتے ہیں اور ورکرز میں بھی جان پڑ جائے گی۔

زرداری کا یہ دعویٰ کہ آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی تو جو لوگ زرداری کو جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض بیان نہیں ہے اگر آصف علی زرداری یہ کہہ رہے ہیں تو اس بیان کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ سابق صدر جب کوئی بات کہہ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس حوالے سے بہت پہلے تیاری کرچکے ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ مخلوط حکومت کے اندر رہتے ہوئے وہ کیسے اپنی پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔ اور ان کی حلیف جماعت نون لیگ کا ردعمل کیا ہو گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں نون لیگ کو آئندہ عام انتخابات میں کتنا سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نون لیگ اس نقصان سے بچنے کے لیے کیا طریقہ کار اپناتی ہے۔

تاہم آصف علی زرداری کے حالیہ بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہر جماعت اپنا الیکشن لڑے گی اور یہ بات تحریک انصاف کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات پیپلز پارٹی کے لیے بطور جماعت بھی فائدہ مند ہوگی کہ پنجاب کے ہر حلقہ میں ان کے ورکرز ایکٹو ہوجائیں گے اور پارٹی تنظٰم فعال ہو جائے گی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا مفاہمت کا کوئی فارمولہ تباہ کن ہو گا اور اگر ایسا کسی مرحلے پر ہوتا ہے تو شاید یہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں آخری الیکشن ہو گا اس کے بعد پارٹٰی کا پنجاب سے ایسے صفایا ہو جائے گا جیسے نون لیگ کا سندھ سے ہو چکا ہے۔ جہاں سوائے چند ایک حلقوں کے کہیں بھی اس کے امیدوار نہیں ہوتے۔

حرف آخر کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا قبل از وقت ہوں گے تو اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے اس کے لیے نومبر کی ایک اہم تقرری تک انتظار کرنا ہو گا جیسے ہی وہ تقرری ہو گئی تو ناصرف انتخابات بلکہ آئندہ کے سیاسی سیٹ اپ سے متعلق بھی چیزیں بہت واضح ہوجائیں گی۔ سب کچھ سامنے آ جائے گا مگر نومبر کے بعد ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments