بیلوں کی لڑائی میں پھنسے بچھڑے


کوئی شک و شبہ یا کوئی ابہام اس امر میں باقی نہیں رہا کہ ملک میں جاری کشمکش کے اصل محرکات کون ہیں جنہوں نے پورے ملک کو حرکت میں رکھا ہوا ہے۔ یہ لڑائی درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کے اکھاڑے میں موجود دو طاقتور ہاتھیوں کی لڑائی ہے جس کے نتیجے میں عوام پس رہی ہے۔

مجھے ان دنوں ایک صاحب بہت شدت سے یاد آرہے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ میڈیا صرف چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ کرے حالات اتنے بھی برے نہیں ہیں اور مزید بہتر بھی ہوجائیں گے!

ان کو کوئی آگاہی دے کہ جناب اب ان حالات میں میڈیا اور عوام کیا کرے؟ ملکی سیاست کا جو حال ہو چکا ہے ایسے میں تو نئی مخلوط حکومت بھی پریشان دکھائی دیتی ہے جبکہ میری ناقص رائے کے مطابق مفتاح اسماعیل کسی کمپنی یا فیکٹری کے فائنانس کو چلانے کی حد تک شاید ٹھیک ہوں مگر ملکی معیشت کو چلانا ان کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی انہیں سخت اور تکنیکی سوالوں کے تسلی بخش جوابات دینے پر کوئی عبور حاصل ہے۔

مکمل طور پر اگر نون لیگ کی طرف سے حکومتی جائزہ لیا جائے تو میاں شہباز شریف میں ایک وزیر اعظم کی خوبیاں نظر نہیں آتیں جبکہ ملک کے سب بڑے صوبے پنجاب میں اب تک لوگ اپنی اپنی نشستوں پر ہی براجمان نہیں ہو پائے تو باقی معاملات کو تو آپ چھوڑ ہی دیں۔

لے دے کر تمام تر حلقے اور عوام پیپلز پارٹی کو ہی دیکھ رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف دوسرے سال بھی ٹیکس فری بجٹ پیش کیا بلکہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو عالمی محاذوں پر بھی اپنا لوہا منوا رہے ہیں دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ لاہور میں بیٹھ کر پنجاب کی سیاست کرنی ہے تو سمجھنے والوں کے لیے اس کا مطلب بھی صاف ہے۔

میرا نہیں خیال کہ کوئی میری اس بات سے اختلاف کرے گا کہ ملک کو جب بھی ایسے ہی آئینی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا تو تمام مقتدر حلقوں نے اپنا وزن پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈالا اور ہر دفع وعدے وعید کر کے ملک کو سنبھالنے کی درخواست کی جسے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کے وسیع تر مفاد میں انجام تو دیا مگر ان کے ساتھ دھوکہ دہی کا سلسلہ جاری رہا اور ملک میں جیسے ہی صورتحال متوازن ہوئی اقتدار کو واپس تخت لاہور والوں کو منتقل کر دیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی طرف سے شہادتیں اور جیلیں جبکہ لاہور کی طرف سے ہر بار مکہ میں قیام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اب کہ صورتحال مختلف تھی کہ جونہی بڑے میاں صاحب کی پیٹھ پہ وار ہوا ان کو عقل آ گئی اور ان کے متبادل کے طور پر عمران جیسے ناکارہ مہرے کو اقتدار پر براجمان کر دیا گیا۔

موجودہ حالات کچھ یوں ہیں کہ طاقت کے پہاڑوں کی لڑائی میں عوام تو ایک طرف سیاستدان بھی بے حد محتاط ہیں اور نون لیگ تو کچھ زیادہ ہی کیونکہ اصل کھلاڑیوں نے وہی کھیل اب تک اتنی بار کھیل لیا ہے کہ اب کوئی بھی ان پر اعتبار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے چہ جائیکہ ملک میں کچھ ضروری تقرریاں اور تبادلے نہیں ہو جاتے۔

پیپلز پارٹی کی باگ ڈور اس وقت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے اور ملک میں اس وقت ان کے معیار کا سیاستدان موجود نہیں ہے۔ یہ ہی وہ شخص ہے جس نے ایک آمر سے وردی اتروائی اور پارلیمنٹ کو اپنی اصلی شناخت دینے کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی مدت پوری ہونے کی روایت بھی قائم کی۔

زرداری صاحب بھی پوری طرح محتاط ہو کر ایک ایک چال چل رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ نون لیگ کی طرف سے سیاسی و حکومتی میدان میں کوئی خاطر خواہ تدبر اور صلاحیت نظر نہیں آتی یا پھر انہیں مدت اقتدار پہلے سے معلوم ہے کہ ہو نہ ہو کچھ وقت میں الیکشنز کا اعلان ہوا ہی چاہتا ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں بگاڑ کے سبب ایوان حکومت سے باہر ہونے والی جماعت ایک بار پھر اپنے تعلقات بحال کرنے کی خواہشمند ہے کہ کسی طرح پھر سے رجوع کی صورت نکل آئے۔

کل ملا کر بات کریں تو حالات یہ ہی بتا رہے ہیں کہ یہ مستقل حل اگلے الیکشنز کے بعد ہی نکل پائے گا تب تک ملک اور قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments