سیاحت، سیر و تفریح اور شمالی علاقہ جات


یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ امتحانات کا ہر دور میں بچوں پر کافی دباؤ ہوتا ہے اب چاہے جماعت چھوٹی ہو یا بڑی، امتحانات طلبا و طالبات پر اپنا بھرپور اثر چھوڑتے ہی ہیں۔

اب ہوا یوں کہ ہماری چھوٹی بیٹی جو جماعت دوم کے امتحانات سے فارغ ہوئی اور اس کا کچھ ہی دنوں میں شاندار نتیجہ بھی آ گیا تو کہنے لگیں کہ مجھے ہنزہ گھمانے لے کر جائیں۔ اب دوسری طرف بڑی بیٹی کے فرسٹ ائر کے امتحانات کا آغاز جولائی کے پہلے ہفتہ میں ہونے تھے تو سوچا کہ طویل پروگرام نہیں بنایا جا سکتا لیکن اس کو بھی امتحانات سے پہلے ذہنی طور پر تروتازہ کرنا تو بنتا ہے لہذا دونوں بیٹیوں سے رائے لی گئی اور متفقہ فیصلے سے ہم نے بابوسر ٹاپ تک جانے کا پروگرام ترتیب دیا تاکہ زیادہ طویل قیام نہ ہو اور لطف اندوز بھی ہو جائیں۔

ہم نے ویک اینڈ کا انتظار کیے بغیر اپنا سفر شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ہمیں کہیں بھی ٹریفک یا لوگوں کا اژدہام نہیں ملا اور ہم آرام سے رکتے ہوئے، کھاتے پیتے، تصویریں بناتے اپنے سفر پر رواں دواں رہے۔ یہ بتاتی چلوں کہ میری بڑی بیٹی کو تصویریں بنانے کا جنون کی حد تک شوق ہے اس لئے کوئی منظر اس نے نظرانداز نہیں کیا اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔

ہم نے سفر فجر کی نماز پڑھ کر شروع کر لیا تھا تو شام پانچ بجے کے قریب دن کی روشنی میں ہی ناران کی وادیوں میں پہنچ گئے تھے۔ یہاں ہم نے قیام کرنا تھا کیونکہ پہلے ہی ہوٹل میں بکنگ کروا دی تھی۔ بالاکوٹ تک تو گرمی ہی ساتھ رہی لیکن جیسے ہی بالاکوٹ سے باہر نکلے تو ناران کی دلکش وادیوں کی ٹھنڈی ہوائیں چھونے لگیں، اس کے ساتھ ہی تاحد نظر سبزے سے بھرے پہاڑوں کا حسین منظر آنکھوں کو خیرہ کیا جاتا تھا۔ ان پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے مقامی لوگوں کے گھر بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور ہم جیسے میدانی علاقوں کے لوگوں کے لئے بہت ہی حیران کن بات ہے کہ وہ لوگ کیسے اتنی اونچائی پر زندگی گزارتے ہیں اور کیسے روزمرہ کا سامان اور اپنے جانور اوپر لے کر جاتے ہیں۔

انسان تو انسان وہاں کے جانور بھی بڑے آرام سے پہاڑوں پر بغیر کسی ڈر اور خوف کے گھومتے نظر آتے ہیں۔ ابھی ہم ناران کی خوبصورتی میں ہی گم تھے کہ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی جس نے وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے۔ اللہ تعالٰی کی تعریف میں کلمات خود بخود زبان سے ادا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر سال ان وادیوں کا رخ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان مناظر سے دل نہیں بھرتا۔ طویل سفر کی تھکان ان خوبصورت نظاروں کو دیکھ کر رفوچکر ہو جاتی ہے۔

لیکن جو چیز سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ ناران کا حسن بلند و بالا ہوٹلوں اور جگہ جگہ ریسٹورانٹ کی تعمیرات کی وجہ سے ماند پڑ گیا ہے۔ ہم ناران کو دوسرا مری کہہ دیں تو بجا ہو گا۔ ان ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ہم نے ناران میں رہنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ویسے بھی بچوں کی فرمائش تھی کہ کسی ایسی جگہ رہیں جہاں وہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں لوگوں کا رش نہ ہو بس راوی سکون ہی سکون لکھے۔ لہذا ان کے بابا نے اپنے ایک دوست کو کال کی اور ہمیں بٹہ کنڈی میں بہت ہی اچھے ہوٹل میں کمرہ مل گیا۔

مقامی لوگوں کے مطابق 10 سے 15 دنوں تک لوگ ان علاقوں کا رخ کریں گے تب رش بڑھ جانے کی وجہ سے نہ صرف کرائے بڑھ جائیں گے بلکہ کمرہ ملنا بھی ناممکن ہو جائے گا۔ خیر ہماری قسمت اچھی تھی کہ مناسب کرائے پر رش نہ ہونے کی وجہ سے بہترین ہوٹل میں کمرہ مل گیا جہاں سے وادی کا نظارہ بہت ہی خوبصورت تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم کسی جنت میں آ گئے ہیں۔

بچپن میں جو ہم تصویر کشی کیا کرتے تھے کہ پیچھے برف پوش پہاڑ ان کے آگے گھر بنا ہوا گھر کے بیرونی دروازے سے ایک پیچ دار سڑک گزر رہی ہوتی تھی اور اردگرد پائن کون کے لمبے درخت لگے ہوتے تھے، دودھیا سفید بادل اڑتے نظر آتے تھے بس وہی نظارے آج آنکھوں کے سامنے تھے اور زبان پر سبحان اللہ کا ورد جاری تھا، کہ بے شک میرے اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ایسی تخلیق کر سکے، اور پھر تم اس کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

یہ حقیقت ہے کہ اس خوبصورتی کو کسی کیمرے کی آنکھ میں قید نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

اگلے دن صبح ہی صبح ہم نے پھر سے اپنے سفر کا آغاز کیا اب کی بار ہماری منزل بابوسر ٹاپ تھی۔ راستے میں مون ریسٹورانٹ سے ناشتہ کیا کیونکہ لاہور سے سفر کا آغاز کرتے ہی بڑی بیٹی کی ایک ہی رٹ تھی کہ مون ریسٹورانٹ سے ہی ناشتہ کیا جائے گا۔ یہاں کے کھانے ذائقے کی وجہ سے بچوں کے پسندیدہ ہیں اس کے علاوہ نظارہ بھی کمال کا ملتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے راستے میں گزرتے ہوئے اوپر سے ہی پیالہ جھیل کا نظارہ کیا جس میں ایک پراسرار سکون ہے جو دیکھتے ہی آنکھوں کو خیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے پھر اس کا گہرا سبز پانی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کے اردگرد سرسبز میدان ان میں گھاس چرتے جانور، گردونواح میں بلند و بالا پہاڑ اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

لولوسر جھیل دیکھی جس کا بہتا ہوا سفید پانی اور لہروں کی کھنکھناتی آواز کسی موسیقی کا سماں پیش کرتی ہیں۔ کئی آبشاروں کے بہتے ٹھنڈے پانی کو چھو کر خود کو خوش نصیب تصور کیا۔ اس دفعہ ہمیں ہمیشہ سے زیادہ گلیشیئرز دیکھنے کو ملے حالانکہ وہاں کے لوگوں کے مطابق اس بار برف باری بہت کم ہوئی تھی اور ان میں سے کئی گلیشیئرز کچھ ہی دنوں میں پگھل جائیں گے۔

اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم بابو سر ٹاپ پہنچے جہاں ہمارا استقبال تند و تیز اور برفانی ٹھنڈی ہواؤں نے کیا۔ لیکن افسوس کہ وہاں بھی ناران کی طرح بے حد رش ملا۔ جگہ جگہ مقامی لوگ شہد اور ابلے ہوئے گرم انڈے بیچنے والے نظاروں سے لطف اندوز نہ ہونے دیتے تھے۔ وہاں ایسی ہلچل تھی کہ خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے کا مزہ کرکرا ہو گیا اور مایوسی ہوئی۔ اسی وجہ سے وہاں زیادہ رکا نہ گیا اور ہم نے واپسی کا ارادہ کیا۔

اس ضمن میں وہاں کی انتظامیہ کو سیاحت کو فروغ دینے کے لئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے جیسا کہ وہاں بینچ نصب کرنے چاہیے تاکہ لوگ اپنی گاڑیوں سے اتر کر بیٹھ سکیں اور اس کے ساتھ ہی وہاں کھانے پینے اور دیگر اشیاء بیچنے والوں کو منظم کرنا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو تنگ نہ کریں اور سیاح زیادہ سے زیادہ یہاں آ کر قدرتی نظاروں کے ساتھ وقت گزار سکیں۔

واپسی پر ہمیں لولوسر جھیل کے قریب بارش ملی جس نے اداس دل کو نہ صرف آباد کر دیا بلکہ لطف دوبالا کر دیا۔ ان پہاڑی علاقوں کی بارش عجیب سماں باندھ دیتی ہے اور شکرانے کے کلمات زبان سے بے خودی میں ادا ہوتے چلے جاتے ہیں۔

ناران کے قریب دریائے کنہار پر رک کر رافٹنگ کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ برف جیسے ٹھنڈے پانی میں سفید لہروں کو گائیڈ کی ہدایت کے مطابق چپو سے کبھی آگے اور کبھی پیچھے دھکیلنا بہت مہارت کا کام ہے لیکن ساتھ ساتھ تفریح کا بھی باعث بنتا ہے جس کا کوئی مول نہیں۔ جب لہریں اپنا زور پکڑتی ہیں تو ٹھنڈا پانی کشتی کے اندر آ جاتا ہے جو کہ دل کو بہت لبھاتا ہے اور بہت دلکش محسوس ہوتا ہے۔

دریائے کنہار پر ٹھنڈی فضا میں گرم گرم قہوہ اور لہروں کا شور ترنم کی طرح محسوس ہوتی ہے جو دل کو چھو جاتی ہے، جو کانوں میں رس گھولتی چلی جاتی ہے۔ یہاں پر انتظامات قدرے بہتر ہیں۔ کوڑے دان بھی نصب کیے گئے ہیں اور بیٹھنے کے لئے مناسب فاصلوں پر بینچ بھی نصب کیے گئے ہیں۔

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس دفعہ ناران اور اس کے اردگرد کی وادیاں ہمیں صاف ستھری نظر آئیں، جگہ جگہ کے ڈی اے کی جانب سے بورڈ آویزاں کیے گئے ہیں جن میں ڈرائیور حضرات کو تیز رفتاری کرنے نتائج اور خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ صفائی کے حوالے سے بھی بورڈ آویزاں تھے۔ درختوں کو کاٹنے سے بھی منع کیا گیا تھا۔ پچھلے سال چھوٹے چھوٹے بچے مانگتے ہوئے ملتے تھے جو گاڑی کے شیشے سے چپک جاتے اور دور تک پیچھا کرتے لیکن اس سال یہ سب نہیں ہوا۔ کوئی مانگنے والا نظر نہیں آیا۔ سڑکوں پر چرواہے اپنے جانوروں کے ساتھ نظر آئے ان علاقوں کی بھیڑ، بکریاں بھی پہاڑوں اور سڑکوں پر دوڑتی ہوئی بڑی پیاری لگتی ہیں۔

ان علاقوں میں رہنے والے انتہائی محنتی اور جفاکش ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چھوٹے چھوٹے گھر اور ان کے آگے خوبصورتی سے لائن میں اگی سبزیاں اور پھل جنت نظیر نظارہ پیش کرتی ہیں۔

اس دفعہ پہلے کی نسبت ہمیں حالات بہتر اور کنٹرول میں نظر آئے جو کہ خوش آئند ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یا تو ہم جلدی چلے گئے تھے یا واقعی تبدیلی آ گئی تھی۔

اعلٰی حکام کو چاہیے کہ سیاحت کو فروغ دینے کے لئے کچھ ضروری اور اہم انتظامات کریں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان علاقوں کا دلی اطمینان کے ساتھ رخ کر سکیں۔ اس طرح وہاں کے مقامی لوگ مناسب کما بھی سکیں اور اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ بھی بھر سکیں۔

موبائل کی سروس کا مسئلہ ہمیشہ کی طرح ہی ہے آج تک کوئی بہتری نہ آ سکی۔ وہاں کے لوگوں کے مطابق ایک کمپنی کے سگنل آتے ہیں اور فور جی چلتا ہے لیکن اس کی کارکردگی بھی کوئی خاص نہیں رہی۔ ہوٹل کا اپنا جو نیٹ یا وائی فائی تھا وہ بھی خریدنا پڑتا ہے جو صرف ہوٹل کی لابی میں ہی چلتا تھا کمروں میں نہیں۔ وہ بھی صرف اتنا کہ گھر والوں کو پیغام دیا جا سکے کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اکثر ہوٹل والے کہتے تو ہیں کہ وائے فائی چلتا ہے لیکن وہ دراصل چلتا نہیں ہے بلکہ رینگتا ہے۔

سڑکیں کئی مقامات پر اس قدر خراب ہیں کہ اندر سے سریے نکل آئے ہیں حتٰی کہ گاڑی کا گزرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بے شک پانی کے مسلسل گرنے سے سڑکیں خراب ہوتی ہیں لیکن سیاحت کو فروغ دینے کے لئے سفر کو آرام دہ بنانا اور ٹوٹی سڑکوں کی بروقت مرمت کرنا بہت ضروری ہے۔

ڈیم کی صورتحال بھی پہلے جیسی ہی ہے۔ کاش ہم تیز رفتاری سے کام کر سکیں اور پانی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کر سکیں۔ پانی کا ضیاع ان علاقوں میں بہت زیادہ ہے جس کو موثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ علاقے کو تجارتی لحاظ سے ترقی دیں لیکن مقامات کا حسن خراب نہ ہونے دیں۔ سیاح ان علاقوں کی طرف رخ کرتے ہیں تاکہ قدرتی مناظر سے اپنے اندر کی تشنگی کم کر سکیں، قدرت کے قریب ہو سکیں اور کچھ وقت تمام پریشانیوں کو بھول کر صرف لطف اندوز ہو سکیں اور اپنے پیاروں کے ساتھ یادگار لمحے بنا سکیں۔

سیاحوں کو بھی چاہیے کہ ان مقامات پر کوڑا کرکٹ کوڑا دان میں ڈالیں یا جو شاپنگ بیگ اپنے ساتھ لائے ہیں اس میں ڈال لیں تاکہ ان قدرتی جنت نظیر وادیوں کا حسن اور ماحول پامال نہ ہو۔

انتظامیہ کو چاہیے کہ مختلف مقامات پر واش روم کے قیام اور ان کی صفائی کا بندوبست کریں تاکہ سیاحوں کو مشکل درپیش نہ آئے۔

اللہ تعالٰی نے ہمارے ملک کو بے پناہ قدرتی ذخائر اور خوبصورت نظاروں سے نوازا ہے اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان مقامات کی حفاظت کریں اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا اہم کردار ادا کریں۔ بلاشبہ سیاحت کو ترقی دے کر قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے تاکہ مجموعی طور پر ملک کی معیشت پر مثبت اثر پڑ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments