سیلیکٹرز اور مہنگائی کا نا نظر آنے والا عفریت


 

سیلیکٹرز نے کمال مہارت سے ملک کو کھوکھلا کر کے سلیکٹڈ۔ اے کو فارغ کر دیا اور اپنے تمام تر گناہوں کا بوجھ نئے آنے والے سلیکٹڈ۔ بی کے سر پر رکھ دیا۔ اب سلیکٹڈ۔ بی مسلسل حالات کی خرابی کا ذمہ دار سلیکٹڈ۔ اے کو گردان رہا ہے۔ اصل ذمہ داران ہمیشہ کی طرح پردے کے پیچھے چھپے مزے سے موجیں اڑا رہے ہیں۔ پہلے تو ہم ناسمجھی میں سیلیکٹرز کو آوازیں دیتے تھے کہ آؤ اور ہمیں بچاؤ اب پردہ چاک ہو رہا ہے اور عام آدمی کو بھی سمجھ آ رہی ہے کہ لڑاؤ اور حکومت کرو ہی اصل ماٹو ہے۔

اصل حکمران کوئی اور ہے باقی ہر چیز سکرپٹڈ ہے۔ عمران خان بظاہر اصل مجرموں کی گردن تک پہنچ گیا ہے لیکن یہ بھی آنکھ کا دھوکہ ہے کہ یہ سب بھی ملی بھگت کا نتیجہ ہے کمک کہیں نہ کہیں سے تو مل رہی ہے وجہ اس کی گردن تک بڑھتے اس ہاتھ کو روکا نہ جانا ہے۔ اصل حکمران یہاں سے فارغ ہوتے ہی کمان اپنے کلب کے کسی دوسرے رکن کے حوالے کر کے خود اپنے پیشروؤں کی طرح ملک سے بھاگ جائیں گے۔ وہ اتنے طاقتور ہیں کہ مجرم ڈیکلیئر ہو چکے شخص کو بھی پورے سٹیٹ آنر کے ساتھ پرچم میں لپیٹ کر دفن کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

سویلین اتنے کمزور ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانیں تو حکومت ایک دن بھی نہ چل پائے صرف دو لوگوں نے ہی ایگریمنٹ توڑنا ہے اور حکومت دھڑم سے نیچے آ جائے گی۔ عظمی 263 درختوں کی من مانی تشریح کر کے پہلے ہی حکومت کی ناک میں نکیل ڈال چکی ہے۔ کیا عمران حکومت اتنی طاقت ور تھی کہ وہ اپنی من مرضی کی تشریح کرا لیتی جب کہ اس کا فائدہ اٹھانے والے کوئی اور ہیں اور یہ تشریح بھی عمران کے جانے کے بعد نئے حالات کو دیکھ کر کی گئی ہے جب کہ اس کی پیش بندی پہلے سے کر لی گئی تھی۔

اب بھی کوئی شک ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ اصل حکومت کس کی ہے اور وہ کس درجے پر جا کر کام کرتی ہے اور اب یہ بھی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ واضح طور پر تعصب نظر آنے کے باوجود یک طرفہ فیصلے دیے جا رہے ہیں۔ کٹھ پتلی کا دھندا چل رہا ہے کہ اس کو مضبوط ہاتھوں نے تھام رکھا ہے۔ حکمرانوں کو کینڈے میں رکھنے کے لیے اپنی من چاہی پراسیکیوشن ٹیم کو بھی ’‘خود ساختہ سو ماٹو” ایکشن کے ذریعے حفاظتی چھتری مہیا کر دی گئی ہے اور صاحب خود بھی گدھ کی طرح چوکنا بیٹھے ہیں کہ شکار کو بدحال کیا جا چکا ہے اگر اس نے ذرا بھی پھڑپھڑانے کی کوشش کی تو نوکیلے دانتوں کو مزید اندر دھکیل دیا جائے گا۔

حیرت ہے جوں جوں مہنگائی بڑھتی ہے توں توں بڑی گاڑیوں کی درآمد اور فروخت میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مہنگائی سے فائدہ اٹھانے والے لوگ بڑھ رہے ہیں ہماری پالیسیاں صرف امیر کو امیر تر بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہمارے جیسے پینشنرز بس ہاتھ ملتے رہتے ہیں کہ ہماری کوئی آواز ہی نہیں ہے۔ حاضر سروس ڈرا کر ، دھمکا کر ، احتجاج کر کے اپنی تنخواہوں کو بڑھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پرائیویٹ ملازمین نمک کے شہر میں نمک ہیں کہ یہ ملازمین احتجاج نہیں کر سکتے، جاب چھوڑ نہیں سکتے اور اس طرح بڑے پرائیویٹ ادارے موج میں ہیں کہ مہنگائی کا ڈائریکٹ بوجھ تو وہ عوام پر منتقل کر ہی رہے ہیں لیکن اپنے سٹاف کی تنخواہیں نہ بڑھا کر اپنے ملازمین کو مہنگائی سے باہر نہ نکالنے کے جرم میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس طرح وہ ملازمین کی سسکیوں پر اپنا منافع بڑھا رہے ہیں۔

پولیٹیکل فلاسفر گرامچی کہتا ہے کہ ماڈرن کیپٹل ازم میں استحصالی طبقہ ( بورژوازی طبقہ) سول سوسائٹی کے بیچ، ٹریڈ یونینز اور بڑی سیاسی پارٹیوں کی پیش کی گئی چند ڈیمانڈز کو پورا کر کے اپنا معاشی کنٹرول قائم کرتا ہے جس پر سیاسی چھتری کے ذریعے عمل درآمد کرایا جاتا ہے۔ یہ سیاسی چھتری ( کرہ) پہلے سلیکٹڈ۔ اے کی صورت کام کر رہا تھا اب سلیکٹڈ۔ بی کی صورت کام کر رہا ہے اور آئندہ بھی اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے نئی ٹیمیں پیدا کر کر کے ان سے کام لیا جاتا رہے گا اور اس طرح استحصالی نظام کے اس کرے کو قائم رکھا جائے گا اور یوں غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پستا رہے گا کہ یہی ان کی ضرورت ہے کہ اگر عام آدمی اپنی کفالت کی طرف بڑھتا ہے تو پھر وہ منہ کھول کر سوال بھی کرتا ہے اور یوں اس کا منہ بند رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے فاقوں تک لے جایا جائے اسے آج کی روٹی کی فکر کھائے جائے اور اس طرح وہ ان کی لوٹ مار کی طرف متوجہ نہ ہو۔ یہی ہماری قسمت ہے، یہی اصل ماجرا ہے۔ اصل حکمران لوٹ مار میں ملوث ہیں اور رہیں گے کہ ان کا مفاد اسی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments