خیبر پختون خوا اسمبلی کی قرارداد اور اقلیتوں کے دستوری حقوق


چند روز قبل خیبر پختون خوا کی اسمبلی نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ یہ قرارداد جماعت اسلامی کی رکن اسمبلی حمیرا خاتون صاحبہ نے پیش کی تھی اور اس پر عنایت اللہ خان صاحب اور سراج الدین خان صاحب نے بھی دستخط کیے تھے۔ ایک صوبائی وزیر نے یہ قرارداد پیش کرنے پر حمیرا خاتون صاحبہ کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

اس قرارداد میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پشاور کے بعض علاقوں میں قادیانیوں یعنی احمدیوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، اور اس بنا پر بار بار صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ قادیانیوں کو لگام دے تا کہ پشاور سمیت صوبہ بھر کے غیور مسلمانوں میں پائی جانے والی تشویش اور اضطراب کا سدباب ہو سکے۔ اور اس قرارداد کے شروع میں ہی واضح کیا گیا ہے کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کا انتظار کیے بغیر ہی اس سلسلہ میں حکومت کو قدم اٹھانا چاہیے۔ اس میں موجود دھمکی اتنی پوشیدہ بھی نہیں ہے کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے۔

اب ہم اس قرارداد کے مندرجات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ اس قرار داد میں بہت زور دے کر یہ بیان کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو پاکستان کے آئین میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور ان پر خود کو مسلمان کہلانے اور مسلمان کی حیثیت سے دعوت و تبلیغ کرنے پر پابندی عائد ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پہلو سے قانون شکنی کب ہوئی اور کس طرح ان ممبران اسمبلی کو اس کا علم ہوا اور کس نے اس بارے میں تحقیقات کیں؟ اس قرارداد کے مطابق ان ممبران کو اس نام نہاد قانون شکنی کا علم سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے پیغامات سے ہوا تھا۔ یہ پیغامات کس کی طرف سے موصول ہوئے؟ اور کس کو موصول ہوئے؟ اور یہ کس طرح علم ہوا کہ احمدیوں کے کسی مخالف کی سازش یا محض افواہ نہیں تا کہ لوگوں کو اشتعال دلایا جائے بلکہ سچائی پر مبنی ہیں؟

اس بارے میں نہ اس قرارداد کو پیش کرنے والوں نے کوئی وضاحت پیش کی اور نہ صوبائی حکومت نے اس کا کوئی ثبوت طلب کرنے کی زحمت کی۔ اگر ہم اس پہلو کو نظر انداز بھی کر دیں تو ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب سوشل میڈیا پر یہ الزام لگایا گیا اور کم از کم کچھ ممبران کو بوساطت سوشل میڈیا ان الزامات کا علم بھی ہو گیا تو کیا پولیس یا کسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ان الزامات کی پر تحقیقات کا آغاز کیا؟ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان الزامات پر کسی ادارے نے تحقیقات نہیں کیں بلکہ اس قرارداد میں اس بارے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے

”اس سلسلہ میں مرکزی ختم نبوت کے ذمہ داران اور جید علماء کرام نے تحقیقات کیے ہیں۔“

اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ تحفظ ختم نبوت کی تنظیم احمدیوں کی علانیہ مخالف ہے اور ان کے پلیٹ فارم سے بارہا عوام کو احمدیوں کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے یہ بھول جائیں کہ کس پر الزام لگا ہے اور کیا الزام لگایا گیا ہے۔ جب کسی پر قانون شکنی کا الزام لگایا جائے تو کیا اس پر جید علماء کرام سے تحقیقات کرائی جاتی ہیں یا کسی مذہبی تنظیم کے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں شواہد جمع کرے یا قانون کی رو سے یہ کام پولیس یا دوسرے قانونی اداروں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس معاملہ میں ان الزامات پر جید علماء نے از خود تحقیقات شروع کر دیں اور قانونی اداروں کو زحمت نہیں دی گئی۔ اور ان ممبران صوبائی اسمبلی نے بھی اس کو کافی سمجھ کر یہ قرارداد پیش کر کے حکومت سے مطالبہ شروع کر دیا کہ احمدیوں کو لگام لگاؤ ورنہ کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی ہو سکتا ہے۔

صوبائی حکومت نے بھی اس سلسلہ میں ثبوت مانگنے میں وقت ضائع نہیں کیا اور نہ یہ اعلان کیا کہ قانون کے مطابق حکومتی ادارے تحقیقات کر کے یہ جائزہ لیں گے کہ یہ الزامات درست ہیں کہ نہیں ہیں بلکہ صوبائی حکومت کے نمائندہ نے فوری طور پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں اور یقینی طور پر حکومت اس سلسلہ میں اقدامات اٹھائے گی۔ دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ بعض احباب کا خیال یہ ہے پاکستان کا آئین دوسری آئینی ترمیم سے شروع ہو کر دوسری آئینی ترمیم پر ختم ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس قرارداد میں دستور کا حوالہ دیا گیا ہے، اس لئے مناسب ہو گا اگر معزز ممبران صوبائی اسمبلی کو یاد دلایا جائے کہ پاکستان کے دستور میں بنیادی حقوق کے بارے میں کئی شقیں موجود ہیں۔ معزز ممبران کو علم ہونا چاہیے کہ آئین کی شق 10 الف کی رو سے ہر شہری اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اگر اس پر کسی جرم کا الزام لگایا جائے تو اسے منصفانہ سماعت اور Due Process [یعنی قانون کا جائز عمل] مہیا کیا جائے۔ یہ ہر شہری کا نا قابل تنسیخ حق ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں آئین کی تمہید ہی پڑھ لیں۔ اس میں یہ واضح اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی مملکت ایسی ہوگی کہ جس میں اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عقیدہ رکھنے اور عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو گی۔

کیا صوبہ پختونخوا میں یہی قانون کا Due Process ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک الزام لگا۔ اور اس کے بعد جید علماء اور احمدیوں کی شدید مخالف تنظیم نے اس پر نام نہاد تحقیقات کیں اور بغیر کسی ثبوت کے کچھ ممبران نے پاکستان کے کچھ شہریوں کو لگام لگانے کا مطالبہ کیا اور صوبائی حکومت نے اس پر شکریہ ادا کر کے اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرا دی۔

اگر بات کسی قانون شکنی تک محدود ہوتی تو قانونی عمل اس کے لئے کافی ہوتا لیکن اس سے بڑھ کر اس قرارداد میں احمدیوں کی طرز زندگی کے بارے میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے

”پشاور کی ضلعی انتظامیہ قادیانیوں کو لگام دے اور انہیں آئین پاکستان کی رو سے دیگر اقلیتوں کی طرح زندگی گزارنے کا پابند بنایا جائے۔“

گویا بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ کیا یہ فیصلہ ممبران صوبائی اسمبلی کریں گے کہ پاکستان کے شہریوں کو زندگی کس طرح گزارنی ہے؟ مناسب ہو گا اگر اس قسم کی قراردادیں منظور کرنے سے قبل ممبران پاکستان کے آئین پر نظر ڈال لیا کریں۔ قرارداد کے اس حصہ سے واضح ہے کہ ان ممبران صوبائی اسمبلی کے نزدیک آئین پاکستان میں اقلیتوں کو کسی خاص طرح کی طرز زندگی کا پابند کیا گیا ہے۔ گزارش ہے کہ وہ آئین کی کون سی شق ہے جس میں اقلیتوں کو کسی خاص طرز زندگی کا پابند بنایا گیا ہے؟ آئین کی شق 31 میں یہ تو ذکر ہے کہ حکومت مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں کو مطابق مرتب کرنے میں مدد کرے گی [اس ضمن میں پاکستان کی مختلف حکومتوں نے کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس کا ذکر بعد میں کسی کالم میں کیا جائے گا] لیکن آئین کی کسی شق میں یہ ذکر موجود نہیں ہے کہ اقلیتوں کو کسی خاص طرز زندگی کا پابند بنایا جائے گا یا انہیں کسی خاص طرز زندگی کو اپنانے سے روکا جائے گا۔ لیکن اس قرارداد میں دھڑلے سے اقلیتوں کے لئے کسی مختلف طرز زندگی کا ذکر کیا گیا ہے اور اسے آئین کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ براہ مہربانی وضاحت فرمائیں کہ آئین پاکستان کی رو سے اقلیتوں کے لئے کون سا طرز زندگی تجویز کیا گیا ہے۔ کیا وہ مختلف رنگ کے کپڑے پہنیں۔ یا ان کے لئے مخصوص کھانے تجویز کیے گئے ہیں۔ یا ان پر خاص طرز کے گھر بنانے پر پابندی ہے۔ یا ان پر کسی خاص زبان کے استعمال پر پابندی ہے۔ صرف آئین کی شق کا حوالہ دے دیا جائے، اس کا تجزیہ پڑھنے والے خود کر لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments