عقل کل کے زعم میں مبتلا عمران خان اور آفتاب اقبال آمنے سامنے


یورپ کو دنیا کے ہر بندے سے زیادہ جاننے کا دعویٰ رکھنے والے عمران خان اور دنیا کے علوم کو گھول کر پی جانے کا دعویٰ رکھنے والے آفتاب اقبال ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے تو یوں لگا جیسے آج علم و عرفان کی خوب نہریں بہیں گی اور ہم جیسے کم علموں کو کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔ ظاہر ہے افلاطون اور ارسطو کے مابین مکالمہ ہو اور سیکھنے کو کچھ نہ ملے ایسا تو نہیں ہو سکتا اور سب سے بڑا جملہ جسے سننے کو کان ترس گئے تھے وہ آفتاب اقبال کے منہ سے نکلا کہ ”خان صاحب آپ میرے سے زیادہ جانتے ہیں“ اب یہ خان صاحب کی کرشماتی یا روحانی شخصیت کا کمال سمجھیں یا کسی روحانی شخصیت کے چلے کا کمال، کچھ بھی سمجھ لیں مگر انتہائی عاجزی کا اظہار وہ بھی زندگی میں پہلی بار آفتاب اقبال جیسا بندہ کرنے پر مجبور ہو گیا اور وہ بھی عمران خان جیسے علمی قد کاٹھ رکھنے والے بندے کے سامنے۔

سیانے درست فرما گئے ہیں کہ اصلی جوہری کو ہی اصلی ہیرے کی پہچان ہوتی ہے۔ جلنے والے جلتے رہیں اور جل کر سیاہ ہو جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ بہر صورت تسلیم کرنا پڑے گا کہ آفتاب اقبال وہ مہان جوہری ہیں جو ایک لمبا عرصہ تک پرویز ہود بھائی جو فزکس میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور ان کے علم و فضل کی ایک دنیا معترف ہے، کی خدمات کی ببانگ دہل تعریف اور پاکستان میں موجود چند گنتی کے جو اہل خرد ہیں ان میں وہ پرویز ہودبھائی کو بھی تسلیم کرتے تھے۔

مگر ایک دن ان پر منکشف ہوا کہ ہود بھائی تو ایتھیسٹ یعنی ”دہریے“ ہیں اس انکشاف کے بعد انہوں نے ان کے سارے علم و فضل کو لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا کہ جو بندہ بے خدا ہے اس کے علم کی کوئی حقیقت یا وقعت نہیں ہے۔ حالانکہ پرویز ہود بھائی نے کبھی بھی کسی فورم پر خود کو دہریہ نہیں کہا مگر آفتاب اقبال نے اپنا فتوی جاری کر کے ان کو متنازع بنا دیا۔ مگر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا کہاں پرویز ہود بھائی جو اپنی ذات میں ایک یونیورسٹی ہے اور کہاں آفتاب اقبال جس کی زندگی کا کل سرمایہ چند ہنسانے والے فنکاروں کے بیچ علمیت کا رعب جھاڑ کر داد سمیٹنا تو پھر ایسوں کو عمران ہی جچتا ہے۔

اور عمران خان تو بہشتی ہو گیا کہ آفتاب اقبال جیسے جوہری کی نگاہ ان پر پڑ گئی۔ اس انٹرویو میں جو سب سے بڑی کمی دیکھی گئی وہ یہ تھی کہ واہ واہ کرنے والے بندے نہیں تھے، اس سیٹ میں اوریا مقبول جان، ہارون الرشید، حسن نثار، عمران ریاض اور ارشد شریف جیسوں کو بھی موجود ہونا چاہیے تھا تاکہ یہ فرینڈلی مجلس خوب جچتی اور خان صاحب مزے لے کر اپنا ریکارڈڈ پروگرام نشر کرتے جو ان کا شروع دن سے ایک ہی ہے اور بہت سوں کو تو زبانی بھی یاد ہو چکا ہے، بالکل اسی طرح سے جس طرح ایک مشہور انڈین مووی ”تھری ایڈیٹ“ میں تعلیمی ادارہ کا ہیڈ ”وائرس“ ہر اسمبلی میں جو رٹے رٹائے جملے بولتا ہے وہ وہاں کے ملازمین کو بھی زبانی یاد ہو جاتے ہیں اور وہ ان جملوں کو دہرا دہرا کر ہنستے رہتے ہیں، ایسے ہی خان صاحب کے بھی چند رٹے رٹائے جملے زبان زد عام ہو چکے ہیں اور لوگ دہرا دہرا کر انٹرٹین ہونے لگے ہیں۔

خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور خیالی دنیا میں گم ہو کر ایبسولوٹلی ناٹ کہنے سے کچھ بھی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ خان صاحب ہم بھی ایبسولوٹلی ناٹ کہنے میں ضرور آپ کے ہم آواز ہو جاتے اگر یہ لفظ کوئی ”جادوئی یا اسم معیشت و خزانہ“ ہوتے جس کا ورد کرنے سے کھل جا سم سم کی مانند ہم پر دنیا کے خزانوں کے منہ کھل جانے کی کوئی امید یا آس ہوتی اور یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگتیں مگر یہ سب ڈھونگ بازیاں ہیں۔

یاد رکھیں آٹا، گھی، چینی، دالیں یا کھانے پینے کی دیگر اشیاء جتنی بھی مہنگی ہو جائیں آپ کو تو اے ٹی ایم کی صورت میں ”قبیلہ ترین و علیم“ مل جائے گا کیونکہ آپ تو اب تارک الدنیا ہو چکے اور نذرانوں سے کام چلا لیں گے مگر بھگتنا غریب کو ہی پڑے گا۔ شہباز شریف یا آصف علی زرداری کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا فرق پڑے گا تو صرف اس طبقے کو جو آپ جیسوں کو ووٹ دے کر بھی غربت کے گڑھے میں دفن ہوتا چلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments