مشرق کی بیٹی


اس عورت نے جو اگر زمانہ قدیم کا کوئی کردار ہوتی تو دیوی پکاری جاتی، کیا کیا ظلم نہیں دیکھا، جھیلا اور سہا لیکن کبھی ظلم کے جواب میں ظلم نہیں کیا ہاں ظالم کو ضرور للکارا لیکن جب بھی بدلہ لینے کی طاقت ملی تو معاف بھی کر دیا

انہیں کون کون سی نفرت کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن کبھی جواب میں نا ہی نفرت کی نا ہی نفرت سکھائی بلکہ محبت اور درگزر کو اپنی طاقت بنایا اور اعتدال و انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا

انہیں گرانے کے لئے کون کون اپنے قد اور مقام سے نیچے نہیں گرا لیکن وہ اپنی پوری تمکنت اور اعتماد کے ساتھ کھڑی رہیں اور سربلند رہیں

جہاں یہ دستور ہو کہ اگر آپ میرے ساتھ نہیں ہو تو میرے دشمن ہو، جہاں متوازن ہونے کو منافقت قرار دیا جاتا ہو وہاں بے نظیر بھٹو نے اپنی شخصیت، نظریات اور عمل کے ذریعے اپنی بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نا کرتے ہوئے اور ہر طرح کی شدت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر مسترد کرتے ہوئے ذاتی اور قومی معاملات میں اعتدال کو خوبصورت ترین ریت بنا کر روایت کی شکل دی اور رواج میں بدل دیا اور اس کے ذریعے ہماری قومی شناخت کو رواداری اور برداشت سے جوڑنے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش کی

آج ہماری سیاست اور معاشرت میں اگر کچھ وضعداری، مروت اور مفاہمت کی بچی کھچی رمق ہے تو وہ بے نظیر بھٹو کی چھوڑی ہوئی میراث ہے اور اگر تمیز، تہذیب اور مکالمے کی کوئی گنجائش ہے تو یہ ان کی ذات سے مستعار صفات ہیں

پاکستان بے نظیر بھٹو کا گھر تھا اور ایک عورت سے زیادہ کوئی اپنے گھر کو جوڑے رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا اور نا ہی اس قدر ایثار کر سکتا ہے، بے نظیر کے پاکستان میں کسی پاکستانی کو اپنے ساتھ کسی نا انصافی کا تو کم از کم کوئی خدشہ نہیں تھا

ذہانت اور بہادری کے ساتھ جب بھی جوش اور توانائی کو تحمل، بردباری اور وقار کے سانچے میں ڈھالا جائے تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا چہرہ بن کر سامنے آئے گا

اپنی پوری زندگی کی سیاسی جدوجہد میں انہوں نے وفاق پاکستان کے تقدس، پاکستان کے دفاع، پاکستانیوں کی تکریم اور اپنی جدوجہد کے ساتھیوں یعنی کارکنوں کے احترام کو ہمیشہ مقدم رکھا جو ان کے بعد آنے والوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا

اپنی زندگی میں وہ مشرق کی بیٹی بن کر دنیا کے سامنے اپنا، اپنے لوگوں کا، اپنے وطن پاکستان کا اور اپنے مذہب کا مقدمہ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ کامیابی سے پیش کرتی رہیں اور اپنی شہادت کے بعد اب وہ پوری دنیا کی نظر میں تعظیم و تکریم کی حق دار ٹھہریں ہیں اور بلاشبہ تاریخ نے انہیں مشرق کی عظیم روایات کی پاس داری کے ارفع منصب پر فائز کیا ہے

مشرق کی بیٹی سے مشرق کی نمائندہ عورت ہونے تک کے اس پرخار سفر میں ان کے پاؤں کے چھالے تاریخ کے صفحات پر گلاب بن کر ہمیشہ مہکتے رہیں گے اور ان کے افکار اور ان کا کردار آئندہ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments