تحریک طالبان پاکستان امن مذاکرات اور چیلنجز


کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک سمت میں اور حوصلہ افزا جا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو اس عمل کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں، یہ جان کر تسلی ہوگی کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ”غیر معینہ مدت کے لیے“ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مذاکرات جاری ہیں۔ کیا یہ مذاکرات پاکستانی شہریوں، مفادات اور تنصیبات پر دہشت گردی کے حملوں کے مستقل خاتمے کی صورت میں نتیجہ کیا نکلے گا۔

پاکستان میں 2001 کے بعد دہشت گردی کی تیزی سے اور بے لگام عروج کی بڑی وجہ ٹی ٹی پی، القاعدہ اور دیگر وابستہ دہشت گرد گروپوں کی پیدائش اور ارتقاء ہے جو امریکی حملے کے بعد پاکستان کے سابقہ ​​وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں گھس آئے تھے۔ افغانستان کے اس وقت کے فاٹا اور دیگر جگہوں پر موجودہ جہادی انفراسٹرکچر نے انہیں پناہ دی اور ان کی حمایت کی اور بہت جلد انہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔

یہ کوئی اچانک یا غیر متوقع عمل نہیں تھا۔ فاٹا، بالخصوص اور پاکستان میں کم از کم دو دہائیوں سے حالات پیدا ہو رہے تھے۔ افغانستان میں سوویت حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی سرپرستی میں جہادی سرگرمیوں نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو جنم دیا۔ امریکی سرپرستی میں جہاد کو سعودی عرب اور دیوبندی علماء کے زیر سرپرستی فروغ دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے بنائی گئی جہادی جماعتوں نے بھی مذہبی عسکریت پسندی کے مزاج میں اضافہ کیا۔

پہلے سے زرخیز مٹی 2001 کے بعد دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے سازگار ہو گئی۔ پاکستان میں مذہبی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ افغان جہاد نے 1979 کے بعد سے جہادی جماعتیں اور جہادی کلچر تشکیل دیا۔ اس سارے عمل میں اس وقت کے پاکستانی فوجی صدر جنرل ضیاء الحق نے ملک کو مذہبی ریاست بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس میں نظام زکوٰۃ، حدود آرڈیننس، توہین رسالت جیسے متنازعہ قوانین شامل ہیں۔

1980 کی دہائی میں ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی شیعہ سنی فسادات کو فروغ ملا۔ اور 2001 کے بعد جہادی کارروائیوں کا عروج، جس میں القاعدہ، ٹی ٹی پی وغیرہ شامل ہیں۔ فرقہ واریت اور جہاد میں ملوث مرکزی جماعتیں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ”آزادی کے جنگجوؤں“ کی حمایت کے لیے بنائی گئی تھیں۔ پاکستانی مذہبی گروہوں نے ہزاروں آدمیوں کو افغان جہاد میں لڑنے کے لیے بھیجا، پاکستانیوں کو یہ یقین دلایا کہ ان جنگجوؤں سے ہمدردی رکھنا ان کا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے۔

سنی فرقہ وارانہ جماعت سپاہ صحابہ پاکستان (SSP) اور شیعہ جماعت سپاہ محمد پاکستان نے ایک دوسرے کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ مدارس اور مساجد پر حملے کا سہارا لیا۔ پاکستان میں تشدد اور عسکریت پسندی کے ان پہلوؤں کے علاوہ، تشدد کے مختلف ذرائع تھے جیسے بلوچستان میں بدامنی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے کراچی میں تشدد اور ہندوستانی سرپرستی میں تخریب کاری اور دہشت گردی، ۔ اسلام پسند عسکریت پسندی کے ساتھ براہ راست منسلک، لیکن مجموعی طور پر غیر منظم صورت حال کو پریشان کر دیا۔

وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں القاعدہ، طالبان کے متعدد ارکان ہلاک اور دیگر منتشر ہو گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے امریکی ڈرون حملوں کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ ان حملوں سے مقامی لوگوں کو بھی بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے نفرت بڑھنے لگی۔ جس سے ایک طرف تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا۔ اور دوسری طرف پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے۔

دسمبر 2007 میں ٹی ٹی پی کی باضابطہ تخلیق کے بعد ، اس کی دہشت گردی کی سرگرمیاں پاکستان کے اہم شہروں بشمول پشاور، راولپنڈی، لاہور، کراچی، اسلام آباد اور کوئٹہ تک پھیل گئیں۔ 2008 کے بعد سے خودکش بم دھماکوں اور بندوق اور دستی بم حملوں نے تباہی مچا دی۔ اس کے نتیجے میں، 2017 کے دوران 65,000 سے زیادہ شہری اور 7,500 فوجی اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ ٹی ٹی پی اچھی طرح سے منظم ہو گئی اور اس نے اغوا برائے تاوان سے لے کر غیر ملکی فنڈنگ ​​تک، تنظیم کو چلانے کے لیے مالیات جمع کرنے اور تمام طریقوں اور ذرائع کو استعمال کیا۔

چونکہ ان لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ نے افغان جہاد میں ہیرو بنا کر پیش کیا تھا۔ اس وقت یہ وفادار تھے۔ جب سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اور اب جب امریکی مداخلت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ تو دہشتگرد۔ یہ وہ بنیادی تضاد ہے۔ جس کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ٹی ٹی پی وزیرستان سے سوات اور دیر تک پھیل گئی۔ سوات میں اس کی قیادت ملا فضل اللہ کر رہے تھے، اس نے پورے سوات میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا۔

اس نے بے رحمی سے اسکولوں پر بمباری کی۔ مقامی لوگوں خصوصاً فنکاروں کو تنگ کر کے نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ بالآخر، فوج نے انہیں قابو کر لیا اور انہیں ان کے مضبوط قلعوں سے باہر تو نکال دیا۔ لیکن انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آرمی نے ٹی ٹی پی کو قابو یا ختم نہیں کر سکی، حالانکہ عددی طور پر یہ پاک فوج کے لیے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ یہ چھوٹے ہتھیاروں سے لیس تھے اور فضائی طاقت یا توپ خانے تک رسائی کے بغیر ملک کے دور دراز کونے میں قرون وسطی کے طرز زندگی کی پیروی کرتے تھے۔

پاکستانی سیکورٹی فورسز کو شکست دینے کے لیے ان کے پاس عددی اور فوجی طاقت کا فقدان تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے وجود کو قائم رکھا، فوج کے خلاف گوریلا کارروائیاں بھی جاری رکھی۔ اور ملک کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن گیا۔ وزیرستان سے اپنی نقل مکانی کے بعد ، ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے مزید خطرناک ہو گئے ہے، جو اپنے بھرتی کیے گئے افراد کے ذریعے دہشتگردانہ حملوں کو منظم کر رہے ہے۔ اور نام نہاد اسلامک اسٹیٹ ( آئی ایس) دہشت گرد گروپ کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی قربت خطے اور اس سے باہر کے لیے ایک واضح خطرہ بنی ہوئی ہے۔

ان حالات میں دو طریقے تھے، جنگ یا مذاکرات؟ چونکہ جنگ کے محاذ پر ان کو شکست دینا ناممکنات میں سے ہے۔ لہذا مذاکرات کا راستہ اختیار کیا گیا۔ افغان طالبان نے ہفتے کے روز تصدیق کی ہے کہ تحریک طالبان افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور انٹیلی جنس چیف عبدالحق قاصق مذاکرات میں ثالثی کر رہے تھے جب کہ پاکستان وفد کی سربراہی کورکمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کر رہے تھے۔ پاکستان (ٹی ٹی پی) اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ختم ہو گئے ہیں۔

ان مذاکرات میں سابقہ قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ جن سے کئی سوالات جنم لے رہے ہے۔ کیونکہ اس وقت سابقہ قبائلی علاقوں کے حقیقی نمائندے ایم این ایز، سینٹرز اور ایم پی ایز ہیں۔ جن کا اصل کام قانون سازی کرنا ہے۔ لیکن ان مذاکرات میں عوام کے حقیقی نمائندوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کا اہم مطالبہ ہے، کہ 2018 کے اس قانون کو ختم کر دیں جس کے تحت سابقہ ​​قبائلی علاقوں کو بندوبستی خیبرپختونخوا میں شامل کیا گیا تھا۔ فاٹا کو برطانوی راج سے ایف سی آر جیسے ظالمانہ نظام کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ جس کا خاتمہ 2018 میں ہو گیا تھا۔ یہ وہی مطالبہ ہے۔ جو تحریک طالبان پاکستان کے روحانی پیشوا مولانا فضل الرحمان بھی کر رہے ہیں۔ ایک طرف شریعت کے دعویدار تو دوسری طرف عوام کو ان کی بنیادی حقوق سے محروم کرنا کون سی خدمت ہے۔

کیا سابقہ قبائلی علاقوں کے بارے میں اتنے اہم فیصلے میں علاقے کے حقیقی منتخب نمائندوں کی نظر اندازی سے کوئی حل ممکن ہے؟ ٹی ٹی پی یہ بھی چاہتی ہے کہ پاکستانی فوجیوں کو سابقہ قبائلی علاقوں سے نکالا جائے، ٹی ٹی پی کے تمام جنگجوؤں کو حکومتی حراست سے رہا کیا جائے اور ان کے خلاف تمام قانونی مقدمات کو منسوخ کیا جائے۔ ان تمام مطالبات کا تعلق قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق ہے۔ ویسے قیام پاکستان کے تحت قبائل سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ ان علاقوں میں فوج کی مداخلت نہیں ہوگی۔ ایف سی فرنٹیئر کور قبائلی علاقوں کی نگرانی کرے گی۔ تاہم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما مختلف مقامات میں ملوث ہیں۔ جیسے آرمی پبلک اسکول پشاور، باچا خان یونیورسٹی حملہ کیس۔ ان جیسے دہشتگردی کے مقدمات کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟ یہ مذاکرات ایسے دور میں ہو رہے ہے۔ جب پاکستان سیاسی عدم استحکام سے دو چار ہے۔ جب ملک میں مزاحمتی تحریک زوروں پر ہے۔ لیکن لہذا ان حالات میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے نہ صرف مثبت نتائج مشکل ہے بلکہ عوام کو قابل قبول نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments