عوام پریشان، احتجاج ناکام اور سیاستدان خوشحال


پاکستان کی سیاست میں احتجاج، دھرنے اور انقلاب کے نعرے معمول کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہر آئے روز کسی نہ کسی سیاسی جماعت نے احتجاج کی کال دی ہوئی ہوتی ہے۔ مگر مشاہدے میں یہ آ رہا ہے کہ کال دینے والی سیاسی جماعت کے کارکنوں کے علاوہ عوام میں سے کوئی بھی توجہ نہیں دیتا۔

اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو عوام کا سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور دوسرا ان کے اندر اس ملک اور اس کی املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس ابھی تک نہیں جاگا۔ اس لئے وہ سیاست کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتے۔

آج کل مہنگائی، بیروزگاری اور غربت تاریخ کی بلند تریں سطح پر پہنچ چکی ہیں مگر عوام سخت پریشان ہونے کے باوجود کسی بھی سیاسی جماعت کی آواز پر باہر نہیں نکل رہے۔ حالانکہ یہ وہ محرکات ہیں جو قوموں کی تاریخ میں انقلاب کا سبب بنتے ہیں۔ جب عوام دیکھیں کہ ملک معاشی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور حکمراں اس کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں تو کسی کا انتظار نہیں کرتے، پوری طاقت سے نکلتے ہیں اور اس سمندر کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔

اسی مہنگائی کا نعرہ لے کر اپوزیشن جماعتیں بھی پچھلے کئی سالوں سے نکلنے کی کوشش کرتی رہی ہیں مگر ان کو بھی مایوسی ہوئی۔ اب عمران خان نے بھی یک بعد دیگرے کئی کالیں دی ہیں مگر توقعات کے مطابق عوام نہیں نکلے۔ جماعت اسلامی تو اکثر اس طرح کے علامتی احتجاج کرتی ہی رہتی ہے اور ابھی انہوں نے بھی ٹرین مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ سب عوام کی نبض کو ٹٹولتے رہتے ہیں لیکن ابھی عوام مست ہے جس سے سیاستدانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام جتنا مہنگائی سے پریشان ہیں اتنے ہی ان کے رویوں سے بیزار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ احتجاج کا عمل بھی پشیمان ہو کر رہ گیا ہے۔

پچھلے الیکشن میں کرپشن کے خلاف عمران خان کا نعرہ کام کر گیا اور عوام نے تحریک انصاف کو ایک موقعہ دیا تھا۔ مگر اب سارے برابر صفوں میں کھڑے ہیں بلکہ تحریک انصاف امامت کرتے دکھائی دیتی ہے۔ سیاست کاروبار بن چکا ہے اور ہے کوئی سیاستدان ایسا جس کے اثاثوں میں کمی آئی ہو بلکہ عدالت عظمیٰ سے صادق و امین پانے والوں کے اثاثوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے کیونکہ پاکستان کا سیاسی ماحول ان کی یہ تربیت کر رہا ہے کہ سیاست نیک اور مالی طور پر کمزور لوگوں کے بس کا کام نہیں۔ لہذا وہ اپنی سیاست کو قائم رکھنے کے لئے جب بھی وقت ملتا ہے خوب ہاتھ پاؤں مار لیتے ہیں۔

قریب تاریخ میں کامیاب احتجاج کی مثال عدلیہ کی بحالی کی ہے جس میں وکلاء اور سول سوسائٹی کا بہت بڑا کردار تھا اور اس کے لئے جب نواز شریف نکلا تھا تو عوام کا ایک سمندر امنڈ آیا تھا ور اس کے گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی حکومت سمجھ گئی تھی کہ اس سیلاب کو سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں یوں انہوں نے فوراً مطالبات مان لئے تھے۔

اب اس موجودہ شوروغل میں نہ تو وکلاء نے اور نہ ہی سول سوسائٹی کے قائدین نے کوئی توجہ دی ہے۔ بلکہ ان کی طرف سے تحریک انصاف پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس ساری صورتحال کے وہ ذمہ دار ہیں اور ان کی جماعت اور کارکنوں کی طرف سے غیر آئینی اقدامات نے بھی ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ دو دن قبل وکلاء کے کنونشن سے خطاب کے دوران وکلاء کی طرف سے بہت مشکل سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا وہ خاطر خواہ جواب نہ دے پائے تھے

محض سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو دیکھ کر امیدیں وابستہ نہ کر لیں بلکہ حالیہ بلدیاتی الیکشنز اور قومی و صوبائی ضمنی الیکشنز کے نتائج کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔

عوام کے توجہ نہ دینے یا نکلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی بھی سیاست دانوں نے ملک میں اس طرح کی روایات کو پنپنے نہیں دیا اور ایک طرف وہ خود احتجاج کے لئے نکلے ہوئے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی ناکامیوں اور نا اہلیوں کے خلاف بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہوتا ہے۔ جب وہ خود کسی کے مطالبات کو اہمیت نہیں دے رہے ہوتے تو پھر ان کے مطالبات کو کوئی کیسے اہمیت دے۔

کل عمران خان پہاڑی پر پورے ملک میں احتجاج کی کال دے کر خطاب کر رہے تھے اور ٹھیک اسی وقت کے پی کے سے اساتذہ اپنے نوکریوں کی مستقلی کے لئے ان کے گیٹ کے سامنے بارش میں بھیگ کر احتجاج کر رہے تھے۔ جو ابھی تک دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پچھلے سال جب ان کی حکومت تھی تو پورے ملک سے آئے ہوئے سرکاری ملازمین پر آنسو گیس، لاٹھی چارج اور گولیاں چلائی گئیں، کئی خواتین اور مرد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اسی تضاد نے دھرنوں کے عمل کو ناکام بنا دیا ہوا ہے۔

تو ایسے حالات میں جب کوئی خود ایسے احتجاجوں کو اہمیت نہیں دیتا تو پھر ان کے احتجاج کی کال پر کون توجہ دے گا۔

اگر بہتری کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے تو وہ آئینی حدود کے اندر رہ کر کوشش سے ہی ممکن ہے۔ جس طرح تمام اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کے شوق پورے کر کے آخر عدم اعتماد کے ذریعے ہی پارلیمان کے اندر تبدیلی کی کوشش کر کے حکومت کو گھر بھیجا ہے۔ اگر سیاستدان آج بھی مخلص ہوں تو سب ملک کر الیکشن کے بغیر بھی کوئی حل ڈھونڈھ سکتے ہیں مگر ان کو عوام کی فکر نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی ہے

جب حکمران اقتدار میں رہ کہ ان کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے تو پھر عوام بھی ان کے احتجاجوں کو تفریح کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے اور وہ اب اس طرح کی تفریحات اور سرپرائزز کے عادی ہوچکے ہیں۔ اب وہ ہر روز پہلے سے بڑی تفریح اور سرپرائز کو دیکھنے کے شوق میں انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا اگر تو حکمران اسے تفریح سمجھ کر جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی اور اگر ان کا خیال ہے کہ اس سے وہ حکومت کو مجبور کر کے گھر بھیجنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام ہی سرچشمہ طاقت ہوتے ہیں مگر وہ عوام تماشبین نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اتنی غیر سنجیدہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں کہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری بھی ان کو حکومت کے خلاف نکالنے میں ناکام ہو جائے۔ یا پھر ممکن ہے وہ موجودہ حکومت کو بھی تھوڑا سا وقت دینا چاہتے ہوں۔

مسلم لیگ پر سابقہ ادوار کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی ان سے امیدیں وابستہ تھیں جو اب مانند پڑتی جا رہی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور ڈالر کنٹرول میں نہیں آرہے۔ اور اگر بروقت بندوبست نہ کیا گیا تو گیس جو ابھی جون میں بھی قلت کا شکار ہے اس کا سردیوں میں کیا حال ہو گا۔ پہلے گیس اسٹیشن حد مارچ تک کھل جایا کرتے تھے اور اب جون بھی ختم ہونے کو جا رہا ہے۔

انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ قائدین خود عوام کی رہنمائی کے لئے ان کے آگے آگے ہوں اور ہر آنے والی سختی کو سہنے اور مقابلہ کرنے کے لئے خود پیش پیش ہوں۔ اگر عوام پیدل چل رہی ہو تو وہ بھی پیدل چل رہے ہوں۔

اب سیاستدانوں کو خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اپنا محاسبہ خود کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ عوام کا خود ساختہ کوئی ریلا ان تمام کو بھا کر لے جائے۔ اب اگر عوام نکلے تو پھر کسی کی کہنے پر نہیں بلکہ خود ہی نکلیں گے اور پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments