اے این پی کا دانشمندانہ فیصلہ


مرکز میں عمران خان کی حکومت جانے کے بعد بلوچستان اور پنجاب کے گورنرز بدل دیے گئے یا ری شفلڈ ہو گئے لیکن خیبر پشتونخوا اور سندھ میں ہنوز کوئی گورنر تعینات نہیں کیا گیا۔ خیبر پشتونخوا تب سے اب تک یہ عندیہ ملتا رہا کہ اے این پی کے میاں افتخار کو صوبے کا گورنر بنایا جائے گا۔ لیکن اس بات کی تصدیق نہ خود میاں افتخار نے کی تھی اور نہ اے این پی کئی کسی ترجمان نے کی تھی، پر یہ بات سیاسی حلقوں میں مسلسل زیر گردش رہی۔ لیکن آج حیدر خان ہوتی کے جانب سے اس بات کا واضح اعلان کیا گیا کہ اے این پی صوبے میں گورنر کا عہدہ قبول نہیں کرے گی۔

اے این پی کے اس فیصلے کی اگر ایک طرف کج رو اور ابن الوقت سیاست مداروں نے سراہنے کے بجائے مذمت کی ہے تو دوسری جانب سیزنڈ اور منجھے ہوئے سیاستدانوں اور سیاست کے داؤ پیچ جاننے اور سمجھنے والوں نے نہ صرف اس فیصلے کو سراہا ہے بلکہ اس اقدام کو خوش آئند اور کل وقتی سیاست کا آئینہ دار بھی قرار دیا ہے۔

جس طرح سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی بالکل اسی طرح سیاست میں کوئی بات حرف اول بھی نہیں سمجھی جاتی۔ وقت اور حالات کے ساتھ سیاسی فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ اے این پی نے اس معاملے میں بڑے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور ”ویٹ اینڈ سی“ کے ساتھ آگے بڑھتے گئے اور جب ٹھیک فیصلے کا وقت آیا تو درست فیصلہ بھی کر ڈالا۔

جینوئن سیاست میں عہدہ سب کچھ نہیں ہوتا بلکہ بروقت اور ٹھیک وقت پر فیصلہ بڑا میٹر کرتا ہے۔ اس دوران اے این پی کی جملہ قیادت کو سوچ بچار کا موقع بھی میسر آیا اور ”ویٹ“ کے ساتھ ”سی“ سے بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ عہدہ براء ہونے والے بے بس افراد کی مثالیں ان کے سامنے اظہر من الشمس تھے تو پھر ایسے مواد کی موجودگی میں باچا خان اور ولی خان کے سیاسی وارثین بھلا کیسے جزوقتی فیصلہ صادر فرماتے۔

صدر اور گورنر کا عہدہ بلحاظ آئین ایک جیسا ہوتا ہے جیسے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے عہدے بلحاظ آئین ایک طرح کے ہوتے ہیں۔ وہ ایسے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ عام انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی اور متعلقہ صوبائی اسمبلی سے پھر الیکٹ ہو کر اپنے اپنے پورٹ فولیوز پر براجمان ہوتے ہیں لیکن صدر اور گورنر کے لئے نہ تو عوامی نمائندہ ہونا ضروری ہے اور نہ عوامی مینڈیٹ، بس اکثر برسراقتدار پارٹی اپنے سب سے زیادہ وفادار اور تابعدار شخص کو چن کر اس عہدے کی پختہ دیوار میں چن لیا جاتا ہے۔ جنھیں ہم پھر ریاست کے نمائندے کے طور پر جانتے اور پہچانتے ہیں۔

اب آتے ہیں کہ اے این پی نے کیسے درست فیصلہ کیا۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔ جیسے کہ مرکز میں صدر کے زیر سایہ پارلیمنٹ ان کے حامیوں کی نہیں ہے اور آئے دن بل پاس کرنے اور ان پر دستخط کرنے یا نہ کرنے کے مسئلے سر اٹھاتے رہتے ہیں لیکن صدر چاہتے یا نہ چاہتے پارلیمنٹ سے دوبارہ بھیجنے والے بل پر دستخط کرے یا نہ کرے اڑتالیس گھنٹوں کے بعد وہ بل یا مسودہ قانون بن جاتا ہے اور بالکل یہی پروسیجر اے این پی کے گورنر پر اطلاق کرتا کیونکہ یہاں بھی صوبے میں ان کے حامیوں کی حکومت نہیں تھی۔

دوسرے یہ کہ خیبر پشتونخوا بہت حساس صوبہ ہے اور گورنر زیادہ حساسیت کا شکار ہوتے جو عوامی سیاست کے حامل میاں افتخار کے بشمول اے این پی کے لئے ان حالات میں کسی بھی حوالے سے کارگر نہیں تھا۔

آئے دن قبائلی اضلاع کے ضم ہونے اور ضم نہ ہونے کی بات ہوتی رہتی ہیں اور اے این پی قبائلی اضلاع کا صوبے میں ضم ہونے کی نہ صرف حامی جماعت ہے بلکہ اس پر ایک واضح موقف رکھتی ہے۔ اگر کل کلاں صوبے میں اس کے خلاف کوئی قانون پاس ہوتا اور گورنر کی موجودگی میں وہ قانون بنتا یا اس طرز کے اور قوانین جو اے این پی کے بنیادی منشور سے متصادم ہوتے اور ان پر کوئی قانون سازی ہوتی اور لازمی ہے یہ گورنر کی دستخطوں سے قانون بنتے تو اے این پی پھر اس سے گلو خلاصی کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتی۔

اس طرح اگر کل پھر کسی اختلاف کی وجہ سے اے این پی کو گورنر شپ سے استعفی ہی دینا پڑتا جو کہ ایسا ہونا ہی تھا تو اس عہدہ سے کلی طور پر منہ موڑنے کا فیصلے کئی زاویوں سے بہتر ہے۔

اے این پی خیبر پشتونخوا کی سٹیک ہولڈر پارٹی ہے اور سٹیک ہولڈر پارٹی کو کسی بھی لولی پاپ پر اکتفا نہیں کرنی چاہیے اور اے این پی نے ایسا ہی کیا۔

اے این پی کی ایک سیاسی تاریخ ہے اور سیاسی تارخ شعوری تاریخ کا عکس العمل ہوتا ہے جس کا مظاہرہ اے این پی نے ماضی میں بھی کشادہ دلی اور کھلے دماغ سے کیا ہے اور حال میں بھی کر کے دکھایا۔

اے این پی کے آنے والے حکومت میں کولیشن کے واضح امکانات ہیں خوا وہ پی۔ ٹی۔ آئی یا جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو جو کہ اس وقت کے ساتھ دیکھا جائے گا لیکن اس وقت گورنر شپ کو نام نہاد کولیشن میں لینا سیاسی موت کے مترادف تھا۔

اے این پی سدابہار سیاست کی حامل پارٹی ہے وہ کسی حادثاتی طور پر ابھر کر اور جذباتی جم غفیر کا ہجومی ٹولہ نہیں ہے بلکہ خدائی خدمت گاروں کے تحریک کی سیاسی امین ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی، عروج حاصل کرتی ہوئی پیٹرول کی قیمتیں، گرتا ہوا روپیہ اور اوج کمال کی جانب اڑان بھرتا ہوا ڈالر اور سیاسی اخلاقی اور معاشی افراتفری کے عوض صرف گورنر شپ کی قبولیت کوئلے کی دلالی میں منہ کالا کے مترادف ہوتا اور کچھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments