من پسند چیز کا مل جانا ہمیں مکمل کر دیتا ہے


ایک دن بسلسلہ امتحان لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ جون کی دو تاریخ تھی گرمی کی شدت اور حبس بھی انتہا کی تھی۔ واپسی پہ رستے سے میں نے ایک جگہ رک کر ٹھنڈی سردائی پی اور رکشہ لے کر جب نجی بس ٹرمینل پہ پہنچا تو ٹکٹ سنٹر پہ بیٹھے ملازم سے سیالکوٹ جانے کے لیے ٹکٹ مانگا تو اس نے بتایا کہ آپ کی گاڑی تین گھنٹے کے بعد ٹرمینل پہ آئے گی تو اس بابت آپ کو تین ساڑھے تین گھنٹے متعلقہ گاڑی کا انتظار کرنا ہو گا۔ یہ سنتے ہی ایک لمحہ تو پریشانی ہوئی کہ اتنا وقت انتظار تو بہت مشکل ہے اسی دوران میں سوچا کہ کسی اور بس سٹیشن سے پتا کر لوں کہ اگر کوئی گاڑی اسی لمحہ نکل رہی تو میں اس میں چلا جاؤں لیکن بے سود۔

انتظار کے علاوہ اور کوئی آپشن نہ بچا تھا کیوں کہ یہی بس تھی جو مجھے سب سے پہلے مل سکتی تھی۔ تو پھر اسی بس کے انتظار میں پہلے تو میں نے بیٹھنے کے لیے اک مناسب جگہ ڈھونڈنا چاہی لیکن بے سود۔ کیونکہ اس وقت ٹرمینل مسافروں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا کہیں کوئی جگہ نہ مل سکی کچھ دیر تو میں کھڑا انتظار کرتا رہا اور اپنے ارد گرد اور ٹرمینل کے اندر اور باہر آتے جاتے مسافروں کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر تقریباً آدھا گھنٹا ایسے ہی کھڑے کھڑے انتظار کرنے کے بعد بالآخر ایک سیٹ خالی ہوتی نظر آئی۔

میں جلد از جلد وہاں براجمان ہونے کے لیے تیزی سے اس جانب بڑا اور اس سیٹ کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ ابھی اتنے میں تین گھنٹے بس کی آمد میں باقی تھے۔ جب میں گاڑی کی آمد کا انتظار کر رہا تھا تو مشاہدے میں آیا کہ ہر شخص کسی دوسرے مرد و عورت کو مختلف زاویہ سے دیکھ رہا تھا اور بقدر بساط منفی یا مثبت رائے دے رہا تھا یا کوئی خاندان اپنی ہی باتوں میں مشغول تھا۔ انہی بے چین ہستیوں کے درمیان میں نے ایک ننھی سی گڑیا کو دیکھا جو کہ ارد گرد سے قطعی لاتعلق، اپنے آپ میں ہی مگن تھی۔

اس کو کوئی فکر نہ تھی کہ کون آ رہا کون جا رہا کوئی کیا کر رہا یا کیسا دک رہا ہے۔ اس کی اس درجہ بے نیازی نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ کون سی ایسی قوت ہے جس نے اس کو ہر چیز سے دور رکھا ہوا ہے کہ جس نے باقی سب کو پریشان کر رکھا ہے، وہ کیوں نہیں ارد گرد آتے لوگوں کو دیکھ رہی اتنا ابھی سوچا ہی تھا کہ اس کے ہاتھ میں مجھے اک چیز نظر آئی جس میں وہ کھوئی ہوئی تھی۔ وہ تھا لالی پاپ۔ جس نے اسے اپنے آپ میں اتنا مشغول کر دیا تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی ہر چیز ہر رنگینی ماند پڑ گئی۔ وہ ارد گرد ساری چیزیں اس کے لیے بے مول تھیں۔

اس ایک لمحے نے زندگی کا فلسفہ سمجھا دیا اور بندگی کا حق بھی سکھا دیا کہ اگر بچے کو اپنی من پسند چیز مل جائے تو اس کے لیے باقی ماندہ تمام اجزاء میں دلچسپی ماند پڑھ جاتی ہیں۔ پھر جو اس کی من پسند چیز اس کے پاس ہوتی ہے تو وہی اس کے لیے سب کچھ ہوتا!

کاش کہ قناعت پسندی اور ارتکاز کا یہ مقام ہم بڑے بھی پا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments