ادھورا سچ


اصل ماجرا یہ ہے کہ زرعی انقلاب کے بعد ہزار ہا سال قبل سے مرد جسمانی مشقت کرنے کے باعث عورت پر ڈومیننٹ رہا ہے۔ تاریخ کے اس پنے سے لڑ کر ابھی کوئی چند سو سال قبل تک عورت کو مختلف صورتوں میں قید رکھا گیا۔

اس قید کی حفاظت کے لیے چالاک مردوں نے مذہب، رسومات اور تعلیمات کا سہارا لیا۔ اب سیچوایشن ایسی ہو گئی کہ ان سب ٹولز کے ذریعے عورت جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ ذہنی قید و بند کا بھی شکار ہو گئی۔

غلامی اسے اپنی فطری آزادی کے جیسے لگنے لگی۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت خود کو بڑی دلیری سے غلام رکھے ہوئے ہے۔

لیکن مغربی ممالک و چند دیگر معاشروں میں صنعتی انقلاب کے بعد سے عورت کو اپنی اس محرومی کا ادراک ہونے لگ گیا اور انقلاب فرانس کے بعد تو مغربی عورت نے معاشرے میں اپنی حیثیت کو پرکھنے کے بعد باقاعدہ معاشرے میں پنپتی اقدار کے خلاف پرچم بغاوت بلند کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کو ان سوسائٹیز میں دھیرے دھیرے ایک مکمل فرد کی حیثیت ملنے لگ گئی اور میڈیا کی بدولت عورت آزادی کی یہ مشک جہاں جہاں تک پھیلی وہاں اس کے اثرات نظر آنے لگے۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ
” عورت کو آزادی دو“
”میرا جسم میری مرضی“
”تیرا باپ بھی دے گا آزادی“
جیسے نعرے بلند ہونے چاہیں یا نہیں۔ کس طریقے سے اور کتنی حد تک عورت کو آزاد ہونا چاہیے۔
اس بات کو فی الحال زیر بحث نہیں لاتے۔

ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ابھی تک عورت جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ ذہنی غلامی کا بھی شکار ہے۔

نسل در نسل ورثے میں ملنے والی اس غلامی نے عورت کے شعور میں یہ چیز پیدا کر دی ہے کہ مکمل فرد ہونا اس کی فطرت میں ہی نہیں وہ ازل سے ادھوری ہے۔ وہ بھی اور اس کی گواہی بھی۔

تو اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے معاشرے میں کوئی ایسا انتظام کرنا ہو گا جو سب سے پہلے عورت کے ذہن پر بندھی روایات، رسومات اور عقائد کی زنجیروں کو توڑ سکے۔ ہمیں عورت کو ایسا تعلیم دینا ہو گی جو اس کو سکھائے کہ تم بھی معاشرے کا ایک مکمل فرد ہو قدرت نے تمہیں بھی مکمل بنایا ہے اور فطری طور پر بھی تم کسی کی تابع نہیں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments