معاشی صورت حال بہتر ہونے میں وقت لگے گا


2013 سے 2018 تک مسلم لیگ نون کی حکومت نے درست اقدامات کر کے دہشت گردی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی۔ شرح سود، شرح غربت اور مہنگائی کی شرح میں کمی کی۔ جی ڈی پی کو چھ فیصد تک پہنچا دیا۔ سٹاک ایکسچینج ستاون ہزار تک چلی گئی۔ امن و امان کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ دولت کی ریل پیل ہوئی۔ بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ عام آدمی کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ملکی تاریخ میں پہلی بار واضح کمی دیکھنے میں آئی۔

معیشت کا پہیا تیز چلنے سے ملک میں بے شمار ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے۔ ڈالر تقریباً ایک سو روپے کے آس پاس رہا۔ پٹرول اور گیس کے نرخ بھی اچھے خاصے نیچے آ گئے۔ آبادی کی بے مہار شرح کے سامنے بھی کسی حد تک بند باندھنے کی کاوشیں کی گئیں۔ تمام معاشی اشاریے بلندی کی طرف جانے لگے تھے۔ معروف بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی معیشت کو خطے میں کامیابی سے آگے بڑھنے والی معیشت قرار دیا۔ برآمدات میں اضافہ اور تجارتی خسارے میں کمی واقع ہونے لگی۔ اسی دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل کر معاشی خود مختاری کی طرف سفر شروع کیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ کرپشن میں کئی درجے کمی آئی۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوا

مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے مقتدرہ کی آنکھ میں ”خراب معیشت“ کھٹکنے لگی۔ نواز شریف کو پانامہ نامی اس کیس میں وزارت عظمٰی سے معزول کر کے تاحیات نا اہل کر دیا گیا، جس میں سرے سے ان کا نام ہی نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ ملک کی تقدیر سے ایک ایسا تجربہ کرنے کی ٹھان لی گئی جو جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے ساتھ کیے جانے والے جوہری تجربوں سے زیادہ خطرناک اور ہولناک ثابت ہوا۔ آر ٹی ایس کیا بیٹھا، پورا ملک ہی بیٹھ گیا۔

ایک ایسے شخص کو حکومت کی باگ ڈور تھما دی گئی جس کے بقول اسے اور اس کی ٹیم کو حکومت کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ انتقام اس شخص کے خمیر کا حصہ تھا اور نون لیگ اس کا بدترین ہدف۔ وہ ساڑھے چار سال تک ایک پیج کی گردان کرتا رہا اور اداروں کو استعمال کر کے سیاسی حریفوں کو بد ترین انتقام کا نشانہ بناتا رہا۔ جس دو سو افراد پر مشتمل معاشی ٹیم کا اس نے شوشہ چھوڑا تھا، اس نے معیشت کے ساتھ وہ کھلواڑ شروع کیا کہ جی ڈی پی کی شرح منفی میں چلی گئی۔ ڈالر بے لگام اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بے قابو ہوتی گئیں۔ نتیجتاً گرانی اور مہنگائی کا طوفان آ گیا۔ سیاسی عدم استحکام نے جلتی پر تیل کا کام کیا عام آدمی دہائی دینے لگا جبکہ مہاتما وزیراعظم ہر روز ٹی وی پر نمودار ہو کر نہ گھبرانے کے بھاشن دینے لگے۔

پچھلی حکومت نے معیشت کا بھٹہ تو بری طرح بٹھایا ہی تھا مگر مزید ستم یہ کیا کہ وہ شخص کشکول لے کر آئی ایم ایف کی دہلیز پر کھڑا ہو گیا جو خود کشی کو اس کار سیاہ سے بہتر سمجھتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سٹیٹ بینک کو آزاد کر کے اس پر آئی ایم ایف کے کارندوں کو بٹھا دیا اور ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے اسے پر لگ گئے۔ مقتدرہ یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا اور اپوزیشن اتحاد نے مہاتما کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کر کے اڑتا تیر ہاتھوں میں لے لیا۔ شنید ہے کہ اگر مہاتما کی حکومت جون تک قائم رہتی تو ملک سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوجاتا۔ اتحادیوں نے ریاست کو اپنی سیاست پر ترجیح دی اور بھاری سیاسی قیمت کے بدلے ملک کی معیشت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو ساحل مراد پر لانے کا فیصلہ کیا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ بڑی مشکل سے ”عمرانی معاہدہ“ بحال کیا۔ چین، سعودی عرب سمیت دوست ممالک آڑے آئے اور معیشت کی بحالی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ مہاتما کی غیر منطقی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا واحد راستہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی تھا۔ دوسری صورت میں ملک سری لنکا جیسے حالات کا شکار ہوجاتا۔ ابھی ملک کو دوبارہ 2017۔ 18 کی پوزیشن پر لے جانے کے لیے کم ازکم دو سال درکار ہیں، ایسا اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر سیاسی استحکام قائم رہتا ہے۔ پاکستان مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے مگر امید ہے کہ ہم اس سنگین بحران سے بھی نکل آئیں گے۔ جس طرح محض دو ماہ میں کوئی حکومت گرے لسٹ سے نہیں نکل سکتی اسی طرح معیشت کا بیڑا بھی دو ماہ میں غرق ہوتا ہے نہ اسے پٹڑی پر ڈالا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments