مجھے مہربانی کر کے واپس جیل بھجوایا جائے، ہسپتال میں مجھ پر دو حملے ہوئے: علی وزیر کا مطالبہ

حمیرا کنول اور ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


’یہاں میرے پر دو اٹیک ہوئے ہیں۔ ایک تب ہوا جیسے ہی میں پہنچا تھا اور ایک دوسرا (بعد میں) ہوا ہے، میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے واپس جیل بھیجا جائے کیونکہ میں یہاں پر غیر محفوظ ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے ہیں، اگر آپ لوگ کہتے ہیں کہ جیل نہیں تو پھر پروڈکشن آرڈر پر عمل کر کے مجھے بجٹ اجلاس میں بھیج دیں۔‘

یہ الفاظ وزیرستان سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے ہیں۔

علی وزیر نے یہ بیان سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دیا ہے۔ اس ویڈیو میں وہ جناح ہسپتال کراچی کے احاطے میں احتجاج کر رہے ہیں کہ انھیں اسلام آباد میں جاری قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں جانا ہے، اس لیے انھیں چھٹی چاہیے۔

منتخب ہونے کے بعد پہلے ایک مقدمے میں گرفتاری پر علی وزیر اور ان کے ساتھی ایم این اے محسن داوڑ کو ہری پور جیل میں رکھا گیا۔ اس مقدمے کے ختم ہونے کے بعد پھر ایک اور مقدمے میں علی وزیر کو کراچی جیل بھجوا دیا گیا۔

علی وزیر کراچی جیل میں قید ہیں اور اُن پر سیکیورٹی اداروں پر تنقید اور اشتعال انگیز تقاریر کر کے عوام کو اُکسانے کا الزام عائد ہے۔

محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد ان کی جیل سے رہائی کے لیے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں، میں نے سپیکر قومی اسمبلی کی توجہ دلائی جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو دیکھتے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔

علی وزیر پیر اور منگل کی درمیانی شب جناح ہسپتال لائے گئے تھے۔ ان کے ساتھ موجود ان کے ایک ساتھی اور پی ٹی ایم کے رکن شیر محسود نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہم ڈاکٹرز پر زور دے رہے ہیں کہ وہ علی وزیر کو ڈسچارج کریں تاکہ وہ بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے جائیں لیکن ڈاکٹرز نے ہمیں انتظار کرنے کو کہا ہے۔

علی وزیر کے ایک اور قریبی ساتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ سادہ کپڑوں میں کچھ لوگ دو بار ان کے پاس گئے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ جب علی وزیر تحویل میں ہیں، پولیس بھی ہے تو یہ کون لوگ ہیں، اسی حوالے سے علی وزیر نے کہا کہ حملے کی کوشش کی گئی۔‘

ان کے ساتھی کا کہنا ہے کہ ’انھیں ذہنی ٹارچر کیا گیا اور ہراساں کیا گیا، لیکن ہسپتال انتظامیہ انہیں ڈسچارج نہیں کر رہی ہے۔‘

شیر محسود نے بتایا کہ علی وزیر کو کمر کی تکلیف ہے اور وہ عدالت میں پیشی کے موقع پر کئی بار اپنے طبعی معائنے کے لیے کہہ چکے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے سپیکر کی جانب سے پروڈکشن آرڈر علی وزیر کے ہسپتال منتقل ہونے کے کچھ گھنٹوں کے بعد جاری ہوئے تھے۔

علی وزیر کے دعوؤں کے حوالے سے سندھ کے مشیر جیل خانہ جات اعجاز جکھرانی، آئی جی جیلز، جناح ہسپتال کے ڈائریکٹر شاہد رسول سے ٹیلیفون پر متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی، تحریری پیغام بھی بہیجے گئے، لیکن ان کا کوئی بھی موقف سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیے

’پروڈکشن آرڈر‘: ماضی میں علی وزیر کی حمایت میں آواز اٹھانے والی پیپلز پارٹی اب خاموش کیوں ہے؟

سپریم کورٹ نے علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کر لی

محسن داوڑ،علی وزیر کے معاملے پر کابینہ کا ’یو ٹرن‘

گذشتہ شب علی وزیر کی ریڑھ کی ہڈی کے لیے معائنے کے لیے ایم آر آئی بھی کی گئی۔

شیر محسود نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر دکھائی دینے والی ویڈیوز دراصل اس احتجاجی ہنگامے کی ہیں جو ان سمیت علی وزیر اور ان کے حامیوں نے رات دس بجے سے دو بجے تک علی وزیر کو ہسپتال سے ڈسچارج کرنے کے لیے کیا۔ ’ہسپتال میں علی وزیر کا بلڈ پریشر اور شوگر تو معمول کے مطابق چیک کی جاتی رہی تاہم اس کے علاوہ ان کی طبعی صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا۔‘

خیال رہے کہ اپریل میں قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو رواں برس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کے موقع پر ایوان میں دیکھا گیا تھا۔

اب بجٹ سیشن کے دوران بھی قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے قانونی اختیار کے تحت ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے ہیں تاہم ان پر عمل نہیں کیا گیا۔

علی وزیر کے وکیل ایڈووکیٹ قادر خان نے بتایا کہ کُل چار مقدمات دائر ہیں جن میں سے دو میں ضمانت مل چکی ہے جبکہ ایک میں ضمانت کا فیصلہ ہونا ہے اور ایک عدالت کے جج چھٹی پر گئے ہوئے ہیں۔

بدھ کی شام علی وزیر کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ان میں وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے چیک اپ کے لیے درخواست دی تھی تاہم اب بجٹ اجلاس کے وقت انھیں ہسپتال بھجوا دیا گیا ہے۔

علی وزیر کا کہنا ہے کہ بجٹ کا پورے سال میں ایک ہی اجلاس ہوتا ہے ماضی میں ہری پور جیل میں قید کے وقت بھی مجھے بجٹ اجلاس سے محروم رکھا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جیل منتقلی یا پھر پروڈکشن آرڈر پر عمل کیا جائے۔

https://twitter.com/muzammilpanezai/status/1539704509831716865

انھوں نے کہا کہ انھوں نے تین برس پہلے درخواست دی ہوئی تھی کہ ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں لیکن اب جب پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے تو انھوں نے مجھے یہاں بھیج دیا گیا۔

علی وزیر اس ویڈیو میں سوال کرتے ہیں کہ ’کیا میں نے اس پارلیمنٹ کا ممبر نہیں ہوں، میں نے رشوت کھائی ہوئی ہے، بم بلاسٹ کیا ہے، کیا میں نے دہشت گردی کی ہے؟‘

علی وزیر گذشتہ ایک برس سے زیادہ عرصے سے کراچی کی جیل میں قید ہیں اور ان کی رہائی کے لیے پی ٹی ایم نے کراچی میں صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا۔

علی وزیر کی گرفتاری

علی وزیر کو دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن کے خلاف کراچی کے تھانہ سہراب گوٹھ میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ان پر پی ٹی ایم کی ایک ریلی کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز اور تضحیک آمیز تقریر کرنے جیسے الزامات عائد ہیں جس پر انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔

نومبر 2021 میں سپریم کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت منظور کر لی تھی لیکن ان کے خلاف شاہ لطیف تھانے میں بھی ایک ایف آئی درج تھی جس کی بنیاد پر انھیں رہائی نہیں مل سکی تھی۔ شاہ لطیف تھانے میں درج ایف آئی آر کے لیے اُن کی ضمانت کی درخواست چند روز پہلے مسترد کی گئی ہے۔

علی وزیر اور محسن داوڑ نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن پی ٹی ایم پارلیمانی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔ اس تنظیم کے اندر اس بات پر بحث جاری تھی اور پھر محسن داوڑ نے اپنی سیاسی جماعت ’نینشل ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کا اعلان کر دیا۔

علی وزیر کی غیر انسانی قید نے ہمیں غلط ثابت کیا ہے‘

سوشل میڈیا پر علی وزیر کی ہسپتال سے جاری ہونے والی ویڈیو اور تصاویر پر تنقید کی جا رہی ہے۔

علی وزیر کے ساتھی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے سبراہ منظور پشتین نے ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ علی وزیر جناح ہسپتال کراچی میں غیر محفوظ حالت میں ہے اسے نہ واپس جیل لے جاتے ہیں اور نہ پراڈکشن آرڈر کے تحت اسلام آباد لایا جاتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کو اپنے پیغام میں ٹیگ کرکے منظور پشتین نے مزید کہا ہے کہ آپ کی جمہوریت میں علی وزیر کے ساتھ تعصب، بلوچوں پر تشدد اور پی ٹی ایم سے میڈیا بلیک آوٹ بدستور جاری ہے۔

منظور پشتین نے پشتو میں ایک دوسرے پیغام میں کہا ہے کہ ان کے ساتھیوں نے گزشتہ شب احتجاج کیا تھالیک انتظامیہ نے یقین دہانی کرایی کہ علی وزیر کو اسلام آباد اسمبلی اجلاس میں بہیجا جائے گا لیکن اس وعدے پر عمل نہیں کیا جائے گا لہذا تمام دوست جناح ہسپتال پہنچے جہاں احتجاج کیا جائے گا۔

کچھ صارفین یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے دو ووٹ تحریک عدم اعتماد میں موجودہ حکومت کے کام آئے لیکن حکومت نے انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا۔

ندا کرمانی نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہم میں سے چند کو امید تھی کہ موجودہ حکومت گذشتہ حکومت کی نسبت انسانی حقوق کے لیے بہتر ہو گی۔

انھوں نے لکھا کہ بلوچوں کو ہراساں کرنا، محسن داوڑ کو حکومتی پوزیشن سے الگ رکھنا اور علی وزیر کی غیر انسانی قید نے ہمیں غلط ثابت کیا ہے۔

صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر کا سندھ جیل حکام مذاق اڑا رہے ہیں اور انھوں نے بجٹ سیشن کے لیے علی وزیر کو جانے دینے سے انکار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’بچوں کی باپ سے جیل میں ملاقات کروانا آسان نہ تھا‘

علی وزیر: ’ریاست مخالف نہیں، لوگوں کے حقوق کی بات کی تھی‘

’چاہتی ہوں اب کوئی اور قتل نہ ہو‘

صحافی و انیکر پرسن ابصی کومل نے لکھا کہ علی وزیر جو کہ ایک منتخب ایم این اے ہیں، ان سے مسلسل ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ انھوں نے لکھا حکومت تو بدل گئی ہے لیکن ریاست کی وہی پالیسی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments