لیجیا از ایڈگر ایلن پو


کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کی الفت سے نا آشنا ہی رہتے ہیں۔ اور جب ان کے جانے کے بعد ہمیں اس راز کا پتا چلتا ہے تو ہمارے حواس اپنی جگہ نہیں رہ پاتے۔ لیجیا ’افسانہ بھی میرے لحاظ سے اسی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ یہ افسانہ معروف مصنف‘ ایڈگر ایلن پو ’کی قلم سے نکلا ہے۔ اور اس اردو میں ڈھالا ہے‘ ابن انشا ’نے۔ ابن انشا نے پو کی بیس پچیس کہانیاں ترجمے میں ڈھالیں۔ جو کہ کتاب‘ اندھا کنواں ’میں دستیاب ہیں۔

کہانی میں ایک خاوند اپنی اہلیہ ’لیجیا‘ کی موت کے بعد اس کی ہر ممکنہ تعریف تو کرتا ہے لیکن کیا اس نے اس کے جیتے جی اس سے اتنی محبت کی؟ اس کا جواب بھی ہمیں کہانی کے اندر ہی مل جاتا ہے۔ خاوند جو کہ اس کہانی میں متکلم ہے اپنی آپ بیتی رقم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب لیجیا بستر مرگ پر تھی تو اس وقت اسے علم ہوا کہ وہ تو جی جان سے بلکہ ستائش کی حد تک مجھ سے محبت کرتی ہے۔ اور جینے کی آرزو میں، فقط مجھ سے محبت کرنے کے لیے تڑپ رہی ہے۔

متکلم جو کہ اس کی موت کے بعد لیجیا کی تعریف و ثنا میں محو ہے۔ اور اس کے جسم کے ہر چیز کو تشبیہات سے مزین کرتا ہے۔ میرے خیال میں اپنی بیوی کی موت کے بعد متکلم کو اس بات کا علم ہوا کہ اس کی بیوی کی محبت عام نہیں بلکہ بہت گہری تھی۔ اور اسی اثنا میں ایک قسم کا پچھتاوا اس میں عود کر آتا ہے۔ کہ وہ کیوں اسے وہی پیار نہ دے سکا جو لیجیا اسے سے کرتی تھی۔ متکلم کو اپنی بیوی کی ذہانت، تعلیم، حتیٰ کے اس کی چاہت اس کے مرگ ناگہاں کے بعد پتا چلتی ہے۔ اور وہ ہر لحاظ سے اپنی نہ کی ہوئی محبت کا پچھتاوا، اس کی تحسین میں ابھرتا نظر آتا ہے۔

لیجیا کے موت کے بعد متکلم دیوانہ سا ہوجاتا ہے اور افیم کا عادی بن جاتا ہے۔ اور ہر وقت اپنی لیجیا کے یاد میں محو رہتا ہے۔ حتی کے لوگوں سے دور کسی سنسان جگہ پر قلعہ نما حویلی میں رہنے لگتا ہے۔ جہاں صرف تنہائی اس کا راہ تکتی ہے۔ اور افیم کی پراسرار راہوں پر چلتا ہے۔ اسی افیم کے نشے میں وہ دوسری شادی کر لیتا ہے۔ اس عورت کا نام ’لیڈی رووینا‘ ہوتا ہے۔ متکلم کو اس عورت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ تو اپنی لیجیا کے یاد میں کھویا سا رہتا ہے۔

رووینا بھی اس کی تنک مزاجی کے سبب اپنے خاوند سے دور رہتی ہے۔ لیکن کرنا خدا کا کہ رووینا بھی بستر۔ مرگ پر لیٹ جاتی ہے۔ اور بہکی بہکی باتیں کرنی لگتی ہے کہ ”یہاں کوئی سایہ موجود ہے“ ۔ ”کسی کی سانس لینا سنائی دے رہا ہے“ ۔ متکلم کو اس کی بات پر یقین نہیں ہوتا لیکن کچھ وقت کے بعد متکلم کو بھی ایک لمحے کے لیے کوئی سایہ سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ جب رووینا صراحی سے حکیم کی دوا نوش کر رہی ہوتی ہے تو سرخ چھینٹے جو کہ کسی مادی یا غیر مادی کے ہاتھوں صراحی میں گرتے صرف متکلم کو دکھائی پڑتے ہیں۔

اور وہ اسی قیاس سے کہتا ہے کہ اس کے کچھ دن بعد رووینا اس دنیا سے چل بسی۔ اس کے بعد خاوند اپنی بیوی کے تابوت کے سرہانے رات کے وقت سو رہا ہوتا ہے کہ اچانک کوئی سسکی اسے سنائی دیتی ہے۔ اور وہ اٹھ کر دیکھتا ہے کہ تابوت میں پڑی اس کی بیوی کے ہونٹ سخت سے نرم ہو گئے اور ہلکی سی سرخی رخسار پر نمایاں ہے۔ مختصر یہ کہ کئی بار لاش میں کبھی جنبش اور کبھی سختی نمایاں ہوتی ہے۔ حتیٰ کی آخر میں اس کی قد کاٹھی تبدیل ہو کر لیجیا کا شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور وہ کفن میں لپٹی لپٹائی کھڑی ہوجاتی ہے۔ اور متکلم ان آنکھوں کو دیکھ کر اپنی دلربا بیوی لیجیا کو پہچان جاتا ہے۔

اب آئیے ذرا اس کہانی کی نوعیت کو سمجھیں۔

پہلی بات متکلم پر اپنی بیوی کی محبت کا انکشاف آخری ایام میں ہوتا ہے۔ اور اس کی شخصیت پر بھی وہ اس کی موت کے بعد غور و فکر کرتا ہے۔ اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی واپس آ جائے تاکہ وہ اس سے اتنی ہی محبت دے سکے جتنا کہ وہ اس دیتی تھی۔

دوسری یہ بات یہ کہ اس کی بیوی موت کے وقت ’گیلون ول‘ کے کچھ سطور پڑھتی ہے جس کا متن یہ ہے کہ ”انسان کی قوت ارادی کمزور ہونے کی وجہ سے اسے موت آجاتی ہے اگر اس کی قوت ارادی مضبوط ہو تو موت اس پر کبھی بھی قابو نہ پاتی نہ ہی فرشتے اس تک پہنچتے۔“ اب قیاس کہتا ہے کہ شاید لیجیا کہ قوت ارادی اتنی مضبوط تھی کہ موت اس پر غالب نہ آ اس کی اس لیے وہ پھر سے رووینا کے وجود میں آ ظاہر ہوئیں۔ قوت ارادی شاید متکلم کی بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے اپنی محبوبہ کو پھر سے پا لیا۔

تیسری بات یہ کہ متکلم افیم کا عادی ہے۔ اور کافی مقدار میں افیم کا نشہ کرتا ہے یہ عادت اسے لیجیا کے گزر جانے کے بعد سے لگی تھی۔ اگر افیم کی بات نہ ہوتی تو غالباً یہ کہہ بھی سکتے تھی کہ متکلم کی قوت ارادی کے سبب اس کی بیوی اسے جیتی جاگتی مل گئی یا لیجیا کی جینے کی آرزو اسے واپس لی آئی۔

لیکن افیم کے ہوتے ہوئے یہ سب حقیقت نہیں بلکہ ایک وہم لگتا ہے۔ اور اسے اپنی لیجیا کا رووینا میں دکھنا اور لاش کی حرکت سب وہم یا نشے کی تخلیق لگتی معلوم ہوتی ہے۔ متکلم کو اتنی شدت سے کسی چیز کی آرزو تھی کہ اس کا دماغ اسے وہ چیز اس کے سامنے لا کر دکھاتا ہے۔ اور ہوتا بھی یہی ہے جسے ہیلوسینیشن کہتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ افیم کی مقدار کی سبب متکلم کو یہ روگ لگ گیا ہو۔ اور اس کا اپنی بیوی سے پچھتاوا، اس کی شخصیت کی تہ تک نہ پہنچا، اس کی علم و وقار، تمکنت سب چیزوں کو عام ماننا جب کہ وہ حقیقت عظیم اور غیر معمولی تھیں۔

یہ سب چیزیں متکلم کو چین کی نیند نہ سونے دیتی ہوں۔ اور شاید اسے ”گیلون ول“ کا وہ قوت ارادی کا قول بھی یاد ہو۔ اور اپنی قوت ارادی مضبوط بنانے کی کوشش کرتا رہا ہو۔ ایک لاش کی حرکت، پہلی بیوی کا اس لاش میں داخل ہونا سب وہم معلوم ہوتا ہے۔ کہانی کو آخر میں پراسرار بنا دیا گیا ہے کہ کیا واقعی قوت ارادی اتنی مضبوطی ہو سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments