سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا سنگم پاکستان کو کمزور کر رہا ہے


پاکستان میں موجودہ سیاسی، معاشی بحران نے ملک میں تلخی کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔ جس سے تلخی اور بڑھ رہی ہے۔ اور سٹاک مارکیٹ آئے دن اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ جس کا سارا اثر ملک کی معیشت اور ترقی پر پڑ رہا ہے۔ ملک مزید خسارے میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں سیاسی بحران ہے۔

مارچ کے مہینے میں پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں جب پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد ملک میں سیاسی غیر یقینی کی فضا میں اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے معیشت منفی اثرات کے دباؤ کا شکار ہو گئی۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ہونے والی مخلوط حکومت کو اس وقت ملک کی موجودہ سیاسی معاشی صورتحال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک جانب معاشی محاذ پر مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے، ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کی مشکل نے اور دوسری جانب وہ کوئی بھی سخت اور مشکل فیصلے لے کر اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں۔ ادھر سیاسی محاذ پر بھی سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کو آئینی و سیاسی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد سے سابق وزیراعظم عمران خان عوامی رابط مہم کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کر رہے تھے اور ان میں وہ ریاستی پر الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومتی اراکین پر مقدمات کا حوالہ دے رہے تھے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کی وجہ سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ملک میں تجارتی کھاتوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے روپے پر دباؤ ہے۔

صرف مارچ کے مہینے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج کا حجم چالیس کروڑ ڈالر کے لگ بھگ رہا۔ اس سال مارچ کے مہینے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا اتنا زیادہ اخراج دو سال کے بعد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال کافی حد تک ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ تو سیاسی امور پر لگی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ معیشت پر توجہ دینے سے قاصر ہے۔ جس کا اثر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاکستان کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری پر پڑا رہا ہے۔

سب سے بڑا سوال پاکستان کو کیا چیز کمزور کر رہی ہے!

یہ بہت بڑا سوال ہے اور اس کا جواب اتنا مشکل نہیں سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان میں بڑھتا سیاسی و معاشی بحران ہی ملک کو کمزور کر رہا ہے۔

معاشی بحران کو ختم کرنے کی کوشش جاری تھی جس کے لیے حکومت نے سخت فیصلے لینا شروع کر دیے۔ ابھی لوگ چیزوں کی درآمدات بند ہونے سے پریشان ہو ہی رہے تھے۔ تو اگلا جھٹکا آئی ایم ایف نے لگا دیا۔ سال 2019 میں پی ٹی آئی کی حکومت نے معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا، یقین دلایا گیا کہ پیسے دے دیں وعدہ نبھائیں گے پیسے ملے تو پی ٹی آئی حکومت نے آنکھیں پھیر لیں۔ پی ٹی آئی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کے مطابق سیلز بڑھانے، پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور سیلز ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا گیا۔

معاہدے کے مطابق عمران خان حکومت کو پیٹرول ڈیزل پر ماہانہ چار روپے فی لیٹر لیوی بڑھانا تھی۔ لیوی میں اضافہ اس وقت تک جاری رکھنا تھا جب تک لیوی تیس روپے نہ ہو جائے مگر ہوا یہ کہ حکومت نے آئی ایم ایف قسط ملتے ہی معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی۔ جنوری کے بعد پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی میں اضافہ نہیں کیا گیا، بلکہ سیلز ٹیکس کی شرح بھی صفر کردی گئی۔ پی ٹی آئی کے یہ اقدامات آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ ردعمل میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ طے کردہ پیکج منجمد کر دیا۔

یہیں سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔ معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو فوری مالی امداد کی ضرورت پڑی۔ وزارت خزانہ کے مطابق ملک اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیرونی تجارتی خسارے، ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔

واضح رہے پاکستان مسلم لیگ نواز کی دو ہزار اٹھارہ میں ختم ہونے والی حکومت کے آخری سال میں اقتصادی ترقی کی شرح چھ فیصد سے زائد تھی تاہم تحریک انصاف حکومت کے قیام کے بعد جی ڈی پی نشو و نما میں کمی دیکھی گئی اور کورونا کی وجہ سے حکومت کے دوسرے سال میں یہ شرح منفی میں چلی گئی۔ گزشتہ سال یہ نشو و نما چار فیصد کے قریب تھی اور رواں سال معاشی شرح چھ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی، سیاسی اور اقتصادی بحران کے زیر اثر ہے۔ یہ بات واضح ہے جب بھی ملک کی معاشی ترقی کی رفتار بڑھتی ہے تو اس کے لیے توانائی کی طلب بڑھتی ہے اور پاکستان توانائی کی ضروریات جیسے کہ تیل و گیس کوئلہ وغیرہ کے لیے بیرونی ذرائع پر انحصار کرتا ہے۔

ملک کو نا قابل تسخیر بننے کی طرف لے جانے والا سب سے اہم عنصر غیر فعال معاشی پالیسیاں ہیں۔ جن پر طویل عرصے سے عمل کیا جا رہا ہے۔ 1980 سے لے کر اب تک تقریباً ہر حکومت نے مالی طور پر غیر ذمہ دارانہ انداز میں کام کیا جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ ملک کو بار بار ایسے مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ملک کے لیے ایک دائمی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں تک، بچت اور سرمایہ کاری کی کم سطح کے ساتھ ملک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ حکومت قومی اخراجات اور ملک کے بیرونی کھاتوں میں بھاری خسارے کا شکار رہی ہے۔

ملکی اور غیر ملکی قرضوں اور بیل آؤٹ پر انحصار نے پاکستان کو قرضوں کے کلاسیکی جال میں پھنسا دیا، جہاں پرانے محکمے کو ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑا اور ملک کو آئی ایم ایف کی ایک سے دوسری قسط تک چھوڑ دیا۔

حکومت کا بیرونی ملک سے قرض لینے سے ملک کی عوام کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس سے ٹیکس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اس قسم کے معاشی انتظام کو یکے بعد دیگرے حکومتی سول اور ملٹری نے تقویت دی ایک بار حکمران اشرافیہ نے کرایہ دار معیشت بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے دائمی مالیاتی عدم توازن کے شناختی ذرائع ابھی تک بے توجہ رہے ہیں۔

پاکستان کی معیشت مالیاتی بحران کے لپیٹ میں ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، بجلی کی قلت عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال رہی ہے اور آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کی درخواست کی جا رہی ہے تاکہ معاشی صورتحال پر تھوڑا قابو پایا جا سکے

کرونا وائرس کی وبا اور عالمی معاشی عوامل نے پاکستان کی معاشی حالت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بڑھتی قیمتیں مہنگائی کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔ جبکہ گیس اور پیٹرول عالمی قلت آج ملک میں بجلی کے بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ حکومت عوامی مفادات کو فروغ دینے کے بجائے اپنی طاقت کے تحفظ کے لیے زیادہ فکرمند ہے۔

یہ سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا سنگم اب پاکستان کو انتہائی کمزور بننے کے خطرے کی طرف دھکیل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments