انڈیا کی ’ریزورٹ سیاست‘ جو حکومتیں بنانے اور گرانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

زویا متین - بی بی سی نیوز، دلی


پاکستان کی سیاست میں چھانگا مانگا اور مری کا نام ہمیشہ کسی نہ کسی بحران سے جڑا رہا ہے اور حالیہ تاریخ میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران بھی اسلام آباد کے سندھ ہاؤس اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے چناؤ سے پہلے لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں منحرف یا ناراض اراکین اسمبلی کی موجودگی نے فلور کراسنگ کے الزامات کو جنم دیا۔

لیکن یہ معاملہ صرف پاکستان کی سیاست تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمسایہ ملک انڈیا کی سیاست بھی ایک بار پھر قانون ساز اسمبلیوں سے نکل کر پرتعیش ہوٹلز میں جا پہنچی ہے۔

ایسا تازہ ترین منظر انڈیا کی سب سے مالدار تصور کی جانے والی ریاست مہاراشٹرا میں دیکھنے کو ملا جہاں کی برسراقتدار جماعت شیو سینا کو بھی اندرونی خلفشار کا سامنا ہے اور اس کے ایک سینیئر وزیر اکناتھ شندے 40 اراکین اسمبلی کے ہمراہ ہزاروں میل دور شمال مشرقی ریاست آسام کے شہر گواہٹی کے ایک پرتعیش ہوٹل میں بند ہوئے بیٹھے ہیں۔

پاکستان کی طرح انڈیا کا جمہوری عمل بھی اسی جماعت کو حکمرانی کی اجازت دیتا ہے جو کسی بھی ایوان میں اکثریت ثابت کر سکے۔

ایسے میں جب نمبرز گیم بہت دلچسپ ہو، خصوصاً کسی اتحادی حکومت کا معاملہ ہو، تو پھر یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے پاؤں تلے سے زمین نہ کھینچ لیں۔ اپوزیشن جماعتیں تو دور کی بات کبھی کبھار اکثریتی مارجن اتنا کم ہوتا ہے کہ اپنے ہی چند اراکین نالاں ہو کر دوسری جانب بیٹھ جائیں تو حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے۔

ایسے حالات میں ’ریزورٹ سیاست‘ جنم لیتی ہے۔ ریزروٹ کسی ایسے پرتعیش ہوٹل کو کہا جاتا ہے جو تفریحی مقام پر واقع ہو۔ یہ ایسی سیاست ہے جہاں ایک سیاسی جماعت اراکین اسمبلی کو جمع کرتی ہے اور کسی ایسے محفوظ ہوٹل یا ریزورٹ پہنچا دیتی ہے جہاں ان پر نظر رکھی جا سکے اور مخالف سے ہاتھ ملانے سے روکا جا سکے۔

انڈیا میں سیاسی رہنما اپنے مخالفین کا راستہ روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق شیو سینا کے وزیر اکناتھ شندے اپنے حامی اراکین اسمبلی کے ساتھ اس لیے آسام جا پہنچے کیوںکہ گجرات، جہاں ان کا پہلے قیام کرنے کا ارادہ تھا، مہاراشٹرا سے اتنا قریب ہے کہ باغی اراکین باآسانی پارٹی رہنما اور وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے تک واپس پہنچ سکتے تھے۔

یہ تمام اراکین مہاراشٹرا پر حکومت کرنے والی شیو سینا کے رکن ہیں جو کانگریس اور مقامی نیشنل کانگریس پارٹی سے اتحاد میں برسراقتدار ہے۔

اکناتھ شندے اور ان کا گروپ اس اتحادی حکومت کی حمایت ختم کرنے کی دھمکی دے رہا ہے جس سے شیو سینا کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہے۔

رپورٹس کے مطابق اکناتھ شندے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اتحاد کے خواہش مند ہیں اگرچہ بی جے ہی نے اس بحران میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے انکار کیا ہے۔

مہاراشٹرا

لیکن انڈیا میں بدھ کے دن مہاراشٹرا اسمبلی کے اراکین کی ایسی ڈرامائی ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں ان کو گجرات ایئرپورٹ سے آسام جانے والی پرواز پکڑنے کے لیے بھاگتے ہوئے دیکھا گیا۔

جب چند صحافیوں نے ان سیاست دانوں کا سامنا کیا تو ان کے درمیان ٹکراؤ ہوتے ہوتے بچا کیوںکہ اراکین اسمبلی ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔

سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ تو کسی فلم کا منظر لگ رہا ہے‘ لیکن انڈیا میں ایسے مناظر کوئی نئی بات نہیں۔ ریزورٹ سیاست کا یہ سلسلہ 1980 کی دہائی میں شروع ہو چکا تھا جب کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ خطرہ ہوتا کہ اس کے اراکین منحرف ہونے والے ہیں۔

ماضی میں کئی مقامات اس وجہ سے بہت مشہور بھی ہوئے جہاں سیاست دانوں نے حکومتیں بنانے یا گرانے کے فیصلے کیے۔

سنہ 1983 میں کرناٹک ریاست کے وزیراعلیٰ راما کرشنا نے اپنے اراکین اسمبلی کو اس وقت ایک لگژری ریزورٹ میں منتقل کر دیا جب ان کو مخالف جماعت کی حکومت گرانے کی کوششوں کا علم ہوا۔

کرناٹک کے اس واقعے کے ایک ہی سال بعد ایسے ہی مناظر انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش میں بھی دیکھنے کو ملے جہاں کے سابق وزیر اعلی چندرابابو نائیڈو نے متعدد اراکین اسمبلی کو یہ بات یقینی بنانے کے لیے ریزورٹ بھجوایا کہ وہ ان کے منصوبے کے مطابق ہی ووٹ دیں۔

1980 تک یہ کہانیاں صرف اخبارات کی مدد سے ہی سنائی جاتی تھیں جبکہ جدید دور کی ریزورٹ سیاست ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی وجہ سے آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی سب سے مالدار ریاست میں اقتدار کی جنگ: 35 اراکین اسمبلی ہوٹل میں بند کیوں ہیں؟

نوجوان کارٹونسٹ جو انڈیا کے سب سے بڑے شہر کے سیاہ و سفید کا مالک بنا

ادھو ٹھاکرے: ریموٹ کنٹرول کی سیاست سے وزیر اعلیٰ تک

سنہ 2019 میں جب کرناٹک کی حکومت کو محسوس ہوا کہ اپوزیشن جماعت ان کے اراکین کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے تو اس نے ان کو ایک لگژری ریزورٹ منتقل کر دیا جہاں سے اراکین اسمبلی کی سامنے آنے والی فوٹیج وائرل ہوئی۔

ناقدین کا ماننا ہے کہ سیاست کا یہ انداز سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری روایات کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔

سیاسی امور کے ماہر راہول ورما کہتے ہیں کہ ’کئی اراکین اسمبلی اس لیے پارٹی بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیوںکہ وہ سینیئر رہنماوں کے مقابلے میں نہایت کمزور ہوتے ہیں۔‘

’ان کی نامزدگی اپنے رہنما سے وفاداری سے جڑی ہوتی ہے، اسی لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی ایک کیمپ کا حصہ بنے رہیں۔‘

سدھیر سوریاونشی بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سیاست میں اب اخلاقیات، اصول یا نظریات اور پارٹی سے یکجہتی کا کوئی کردار باقی نہیں بچا۔ ہر رکن اسمبلی صرف اقتدار میں رہنا چاہتا ہے۔‘

انڈیا میں ایسے قوانین ضرور موجود ہیں جو انفرادی طور پر پارٹی سے انحراف کا راستہ روکتے ہیں لیکن یہ قانون اس صورت میں لاگو نہیں ہوتا جب کسی بھی جماعت کے اراکین اسمبلی کی مجموعی تعداد کا دو تہائی حصہ پارٹی کا ساتھ چھوڑ دے۔

اور یہی وجہ ہے کہ انڈیا کی سیاست میں جب بھی کسی پارٹی سے انحراف کیا جاتا ہے تو ایسا کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

انڈیا میں درجنوں مضبوط علاقائی سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے سبب ریاستی انتخابات میں ملا جلا نتیجہ نکلتا ہے جس میں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پاتی اور ایسے نتائج ریزورٹ سیاست اور پارٹی بدلنے کی روایت کا دروازہ کھلا رکھتے ہیں۔

راہول ورما کہتے ہیں کہ ’اگر کسی بھی مارکیٹ میں کئی چھوٹے چھوٹے کھلاڑی ہوں تو ہمیشہ ایک ایسا کھلاڑی ضرور ہو گا جو سب پر سبقت حاصل کر لے گا تاکہ اس کی اجارہ داری قائم ہو جائے۔ سیاست دان بھی ایسے ہی کام کرتے ہیں۔‘

اور جب بھی ایسا کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تو اس کا مقام کوئی مہنگا ہوٹل یا پھر کسی تفریحی جگہ واقع ریزورٹ ہی ہوتا ہے۔ کئی سیاست دانوں کو اپنی ریاست سیاسی بحران میں جھونکنے کے بعد ایسے ریزورٹس میں کرکٹ یا تاش کھیلتے دیکھا گیا اور یہ مناظر ریکارڈ بھی ہو چکے ہیں۔

عموماً ایسے وقت میں سیاست دانوں کو اپنے ڈیجیٹل ڈیوائس جیسے موبائل فون بند رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کو سینیئر رہنما اپنی نظر کے سامنے رکھتے ہیں۔

کانگریس

2019 میں کانگریس پارٹی کی راجھستان میں اندرونی لڑائی کے دوران پارٹی اراکین اسمبلی ہوٹل منتقل کر دیے گئے

2019 میں راجھستان اسمبلی کے کانگریس اراکین اسمبلی کی دو سینیئر رہنماؤں کی اندرونی لڑائی کے دوران ایک ہوٹل میں خاطر تواضع کی گئی اور ان کے لیے خصوصی فلم اور جادو کے شوز کا اہتمام کیا گیا۔ اراکین اسمبلی کی یہ چھوٹی سی چھٹی انٹرنیٹ پر میمز اور مذاق کا سبب بھی بنی۔

لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ منصوبے الٹ ہو جاتے ہیں، خصوصاً ایسے میں جب کچھ اراکین اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا شروع کر دیں۔

ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں جن کے مطابق اراکین اسمبلی نے لگژری ہوٹلز اور ریزورٹس سے فرار کی کوشش کی۔

مہاراشٹرا میں بھی کچھ ایسا ہوا۔ چند شیو سینا رہنماؤں نے اپنی گرفتاری اور پھر فرار کی تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔

کیلاس پٹیل نے بتایا کہ ان کو چند باغی اراکین نے یہ کہا تھا کہ وہ رات کا کھانا کھانے ممبئی تک جا رہے ہیں لیکن وہ ان کو گجرات لے گئے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ گاڑی سے تو نکلنے اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس کے بعد ان کو میلوں پیدل چلنا پڑا جس کے بعد لفٹ مانگ کر وہ ممبئی تک پہنچے۔

شیو سینا کے ہی ایک اور رکن اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ کچھ لوگوں نے ان کو اس وقت زبردستی ایک ہسپتال میں داخل کروا دیا جب انھوں نے گجرات کے ہوٹل سے نکلنے کی کوشش کی۔ وہ پھر بھی نکلنے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد انھوں نے پارٹی رہنما کو حمایت کا یقین دلایا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ شاید ٹی وی پر دیکھنے میں تو اچھا لگے لیکن یہ سیاست میں اخلاقیات کی نتزلی کی جانب اشارہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments