ہم ڈیلی روٹین کے عادی لوگ


آج کل قربانی کا دور دورہ ہے۔ محلے گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں انسانوں سے زیادہ جانور نظر آ رہے ہیں۔ جانوروں کے چارے سمیت ان کی تزئین و آرائش کے لئے جگہ جگہ عارضی پتھارے سج گئے ہیں۔ جوان اور بچے اپنے اپنے قربانی کے جانور گلی محلے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے نمائش کے لئے گھوما پھرا رہے ہیں۔ گھروں کے آگے جانوروں کو بارش اور گرمی سے بچانے کے لئے پلاسٹک سے ڈھکے چھپر بنا دیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ اجتماعی قربانی کے بینرز لگے ہوئے ہیں۔

جگہ جگہ عارضی جانوروں کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں اور آتے جاتے پیدل اور گاڑیوں میں لوگ ایک نظر جمانے کے لئے اپنے اپنے قدموں کو اور گاڑی کے ٹائروں کو بھی لمحہ بھر کے لئے جما دیتے ہیں۔ جوان ساری ساری رات جانوروں کی چوکیداری اور خدمت گزاری میں گزار دیتے ہیں۔ چھری تیز کرنے والوں نے بھی جگہ جگہ اپنے کام کو فعامل کیا ہوا ہے۔ قصابوں کو پندرہ دن پہلے سے پابند کرانے کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔ اجتماعی قربانی کے جانوروں کے لیے جگہ جگہ عارضی باڑے بنائے گئے ہیں۔

یہ ہر سال کا ہمارے شہر میں رہنے والوں کی روٹین ہوتی ہے جبکہ گاؤں والوں کی روٹین جانوروں کے ساتھ مانوسیت کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے۔ وہاں گائے بیل، بکری، بھیڑ، دنبہ، بھینس یا اونٹ کسی کے لئے اجنبی چیز نہیں ہوتی۔ لیکن قربانی کے لئے جانوروں کی آؤ بھگت پھر بھی تھوڑی بہت ہوتی ضرور ہے لیکن پھر بھی شہروں کی طرح نہیں۔

اسی طرح جس پر قربانی واجب ہو یا نہیں لیکن وہ قربانی کرے گا ضرور کیوں کہ یہاں دکھاوے پر واہ واہ ہے۔ بڑا نام ہوتا ہے۔ بندہ صاحب حیثیت مانا جاتا ہے لیکن یہ سیالی یا مقابلہ نماز میں کوئی نہیں کرے گا کہ فلاں پڑھ رہا ہے تو میں بھی پڑھوں کیونکہ یہاں دکھاوے پر واہ واہ نہیں، اس عبادت میں سجدے کی صورت میں خودی کو خاک میں مٹا دیا جاتا ہے۔ صاحبان صوم و صلوات کے صف میں شریک تو شمار کیے جائیں گے لیکن صاحب حیثیت افراد کی قطار میں کھڑے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔

ہمیں ہر سال نصاب اور غیر نصاب، اہل ثروت اور نا اہل ثروت کی تفریق اور اہمیت بتا دی جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ سال میں ایک بار کرنی ہوتی ہے تو ہم اس کی ضروریات بھول جاتے ہیں۔ کون سے جانور پر قربانی کی جا سکتی ہے کون سے پر نہیں۔ کان کٹے لنگڑے، لاغر، ناقص، سینگ کٹے، دو دانتوں والے پر قربانی ہو سکتی ہے کہ نہیں۔ ایک جانور میں کم سے کم کتنے اور زیادہ سے زیادہ کتنے بندے حصہ لے سکتے ہیں؟ قربانی پہلے دوسرے یا تیسرے دن ہوگی اس پر بھی مشورے ہوتے ہیں۔

موسمی قصاب ان دنوں رسیوں چھریوں اور ٹوکوں کے سات امڈ آتے ہیں۔ مفتیوں اور مولانا صاحبان سے پوچھنے کا یہ ہرا بھرا سیزن ہوتا ہے۔ قربانی کے شرائط، واجبات فرائض اور سنت تو بتاتے ہی بتاتے ہیں بلکہ عید والے دن عید کی نماز کا باقاعدہ طریقہ بھی نیت سے پہلے بتایا جاتا ہے لیکن پھر بھی زیادہ تر نمازیوں سے تین تکبیروں کے پہلے تکبیر کے بعد سجدے کی طرف جانے کی غلطی ہوہی جاتی ہے کیونکہ پورے سال کے بعد یہ نماز ہوتی ہے اور چھ زائد تکبیروں کے سات ہوتی ہے تو اکثر نمازی ادائیگی کا طریقہ بھول جاتے ہیں۔

اجتماعی قربانی کے گائے بیل اکثر مدرسوں کے سامنے بنے ہوئے عارضی باڑوں میں بانھ کر رکھتے ہیں اور اس دوران محلے کے لوگ بھی اپنے اپنے جانور ادھر باندھتے ہیں تاکہ چور اچکوں سے محفوظ رہیں کیونکہ ہم تو یہ دھندا بھی کرتے ہیں۔ اکثر لوگ مولانا صاحب سے قربت کی وجہ سے اپنے گائے بیل کے دانت دکھواتے ہیں تاکہ مولانا صاحب کا اس پر فتوا آ جائے اور ان کا بیل یا گائے تبرک کے درجے پر فائز ہو جائے۔ بالکل اسی طرح ایک بندہ کسی مدرسے میں اپنا جانور مولانا صاحب کے پاس لے آتے ہیں تاکہ وہ جانور کے دانت دیکھ کر بتا سکیں کہ وہ قربانی کے لائق ہے کہ نہیں تو مولانا صاحب نے گائے کے منہ کے اوپر نیچے دونوں ہونٹ پکڑ کر کھولے اور دانت دیکھ کر بولے اس پر قربانی ہو سکتی ہے اور چلے گئے۔

اس کے بعد مدرسے کا ایک ایک طالب بیل پر وہی طریقہ اپناتے گئے جو بڑے مولانا صاحب نے اپنایا تھا جب یہ سلسلہ طویل ہو گیا تو پھر جو بھی پگڑی والا طالب بیل یا گائے کے قریب آتا تو جانور اپنے آپ اپنا منہ اسی طرح کھول لیتا تھا جیسے مولانا صاحب نے یا قطار در قطار پہلے والے مدرسے کے طالبان نے کیا تھا۔ مطلب ہم بھی قربانی میں سب کچھ دوسروں کو دیکھا دیکھی کرتے ہیں یا پھر عادتاً کرتے ہیں حتیٰ کہ عید کی نماز بھی دوسروں کو دیکھ کر پڑھتے اور مکمل کرتے ہیں۔ ہم ڈیلی روٹین کے لوگ ہیں اگر ہم ڈیلی روٹین سے زرہ بھی ہٹ جائیں تو پھر ہمیں نقل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور مشہور جملہ ہے کہ نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم عقل کے استعمال کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments