پھر آیا کوئی ابراہیم، آذر صنم خانوں میں شور الاماں ہے


کشت زعفران کے خالق، جناب آذر عسکری کشمیر کے ایک عظیم قادر الکلام مزاح گو شاعر تھے جو 28، اپریل 1911 ء کو اسکردو میں پیدا ہوئے اور 6 مارچ 1983 ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ کشت زعفران ان کے مزاحیہ کلام کا مجموعہ ہے۔ جو حجم میں تو پطرس کے مضامین کی طرح بہت مختصر ہے، مگر شگفتہ مزاح سے بھرپو ان کا کلام دل میں شگوفے کھلا دینے والا ہے۔ ہم انہیں اکبر کشمیر کہتے ہیں۔ ان کے ہاں جو ندرت خیال، لہجے کی روانی، غیر روایتی شاعرانہ ترکیبات کی فراوانی، فارسی کی خوشبو دار مٹی میں گوندھے اشعار کی شبنم فشانی، طبیعت کی جولانی، اور چٹکتے لہجے میں سنجیدہ سے سنجیدہ موضوعات پر ان کے قلم میں جو روانی پائی جاتی ہے، وہ بہت کم یاب بلکہ نایاب ہے۔

کشت زعفران کا نام اسم بامسمی کی بہترین مثال ہے۔ اس کتاب کی شروعات ہی بہت دلچسپ انداز سے ہوتی ہے۔ کہ کتاب کے ابتدائی صفحے پر اپنی نوجوانی کی تصویر لگا کر لکھتے ہیں۔ ”کبھی جو آگ تھی شعلہ فشاں“ ۔ اور پھر اپنے بڑھاپے کی تصویر لگا کر لکھا۔ ”اس کا دھواں یہ ہے“ ۔ قاری کی کتاب میں دلچسپی ادھر ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔

یوں تو جناب آزر عسکری مزاحیہ شاعری کے بے تاج بادشاہ ہیں، مگر ان کا قلم سنجیدہ شاعری کے میدان میں بھی ایسی جولانیاں دکھلاتا ہے کہ قاری ان کے تخیل کی پرواز، اور ان کی نادر شاعرانہ تراکیب کا ایسا گھائل ہوتا ہے کہ بس۔ ان کی ایک سنجیدہ غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں، ثبوت کے طور پر۔

سراغ خون ناحق بھی اگر نکلا، تو کیا نکلا
دل کشتہ، شہید شوخی رنگ حنا نکلا۔
یہ شہید شوخی رنگ حنا کی ترکیب غضب کی ہے۔
بہ صحرا گردشِ عسرت نصیبے سادہ پروازے
نشیمن کب بہ قدرِ وسعتِ بالِ ہما نکلا۔
اس غزل کا مقطع کچھ یوں ہے
عبث سلجھا رہے ہو گیسؤ ژولیدہ اے آزر
بھلا اب تک کسی سے یہ خم موج ہوا نکلا۔

یہ خم موج ہوا والی ترکیب تو کچھ ایسی دل میں کھبتی ہے کہ انسان اس نازک خیالی کے سحر سے آزاد ہو ہی نہیں پاتا۔ اور آذر عسکری کے علاوہ اس طرح کی خوب صورت ترکیب کہیں اور نہیں ملتی۔

ایک اور غزل میں محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
کب جچے ہیں یہ گلستان کے پھول
ہم نے دیکھے ہیں تیرے کان کے پھول
تم کو رغبت اگر ہو پھولوں سے
جمع کر لائیں دو جہان کے پھول
کشت دل کی نہ پوچھ زرخیزی
اس میں اگتے ہیں زعفران کے پھول
موت نے مات دی ہے آزر کو
تو خوشی سے نہ سینہ تان کہ پھول۔

ان کی مزاحیہ شاعری کو دیکھا جائے تو وہ مزاح کے پردے میں معاشرے کی دو رنگیوں، بین الاقوامی سیاسیات، حکمرانوں کے نمائشی کاموں، اور افسر شاہی کے معاملات پر ایسی لطیف چوٹ کرتے ہیں کہ خود چوٹ کھانے والا بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔ گویا!

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کہ بے مزا نہ ہوا
والا معاملہ ان کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔
ایک بار آزاد کشمیر حکومت کو کسی لائسنس / پرمٹ کے لئے درخواست لکھی تو اس میں یہ شعر لکھ دیا۔
سفارش گر کوئی سیکرٹری کے پاس ہو جائے
بڑھاپے میں کچھ اپنی زندگی کا آسرا کر لوں
یہ لائسنسوں کی گنگا، جس میں اک دنیا نہائی ہے
اجازت بخش دیں تو میں بھی استنجہ ذرا کر لوں
مولویوں کی تلفظ کی ادائیگی پر زور دینے کی عادت کو نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں۔
جنون صحت لفظی نہ پوچھو
خطیب شہر کا جھٹکا ہوا ہے
پڑے ہیں کل سے سی ایم ایچ میں حضرت
گلے میں عین اک اٹکا ہوا ہے

ان کی ایک معرکۃ الآرا نظم ہے بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے۔ جو پوری تو یاد نہیں (ان کا کلام آج سے کوئی 30 سال پہلے پڑھا تھا اب زیادہ یاد نہیں ) مگر جو یاد ہے وہ مذکور ہے اور اسے پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ کتنی کمال چیز ہے۔ فرماتے ہیں۔

بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
دن اپنے وہاں کیسے گزرا کریں گے
وہاں کس کی فرقت میں تڑپا کریں گے
وہاں نقش پا کس کا ڈھونڈا کریں گے
کریں گے تو کس کی تمنا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے

اسی نظم میں بین الاقوامی معاملات میں اقوام متحدہ کے کردار پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
نہ کوئی وزارت نہ کوئی صدارت
نہ حاصل امارات کے بل پر سفارت
وہاں چین ہو گا ہو گا نہ روس اور بھارت
کسی کو کوئی کر سکے گا نہ غارت
وہاں جبریہ کس پہ قبضہ کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے

اسی نظم میں ہمارے ہاں مروج مقدمہ بازی، تھانہ کچہری اور ان سے جڑی خرابیوں کو ذکر کچھ یوں کرتے ہیں۔
نہ تحصیل اس میں نہ تھانے کی ذلت
نہ لڑنا جھگڑنا نہ شکوہ شکایت
وکیلوں کی اجرت نہ حاکم کی رشوت
ادھر بھی محبت ادھر بھی محبت
مسلسل محبت کو چاٹا کریں گے؟
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے۔

ہمارے معاشرے میں ایک عام چلن یہ ہے کہ ہم اپنی غیر ذمہ داریوں، غفلتوں اور غلط اعمال کے نتائج کو اللہ کی مرضی کا نام دے کر خوش ہو جاتے ہیں، اور یوں کبھی بھی ان غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آذر صاحب نے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس رویے کو اپنی ایک نظم خدا کی مرضی میں انتہائی موثر طریقے سے یوں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اس معاملے کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ان کی نظم کافی طویل ہے، اور خاصی طویل بحر میں بھی ہے۔ ملاحظہ کیجئیے۔

کسی کا گردش میں آ گیا ہے اگر ستارہ خدا کی مرضی
کسی نے غصے میں آ کے چاقو کسی کے مارا، خدا کی مرضی
کسی نے چلتے میں جیب کاٹی، تو دل پکارا، خدا کی مرضی
بجائے پنڈی کے گولڑے بس نے جا اتارا، خدا کی مرضی
کسی کے تلوؤں میں چبھ رہے ہیں نکیلے پتھر تو کیا کریں ہم
کسی کو بخشی گئی ہے دس ہاتھ لمبی موٹر تو کیا کریں ہم
کسی کی قسمت میں ٹھوکریں ہیں، کوئی منسٹر تو کیا کریں ہم
اجارہ داری کسی کو حاصل، کوئی بیچارا، خدا کی مرضی

بڑی ہی مشکل سے بگڑے حالات کو ذرا ڈھب پہ لائے تھے ہم
ملا تھا اک چیک کہیں سے ہم کو، مشاعرہ پڑھ کے آئے تھے ہم
مگر یہ قسمت کہ گردش دہر کو کچھ اس طرح بھائے تھے ہم
قمار خانے میں جا کے اس چیک کو ہم نے ہارا، خدا کی مرضی
گیا زمانہ وہ بیل گاڑی کا اب تو دنیا بدل گئی ہے
لکھی ہے چالیس گرچہ اسپیڈ، سو کے آگے نکل گئی ہے
وہ تیز رفتار بس الٹ کر کئی مسافر کچل گئی ہے
ڈرائیور کا قصور کب ہے، خدا نے مارا، خدا کی مرضی

سیاسی لیڈروں پر کہی گئی ان کی نظم اے لیڈری پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ کتنے شگفتہ اور نفیس طریقے سے اس اعزاز یافتہ کلاس کا صحیح ترین نقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشہ گری میں اردو اور فارسی کے حسین امتزاج نے چار چاند لگا دیے ہیں۔

شیدائے تو دیو و پری
یغمائے تو غارت گری
مشہور دہر است افسری
از افسری، بالا تری، اے لیڈری اے لیڈری
جس پر ہوئی تو مہرباں
بوڑھا ہو یا ہو نوجواں
دبتا ہے اس سے بے گماں
یہ گنبد نیلو فری، اے لیڈری اے لیڈری
تیرا نرالا طور ہے
سردی میں تو لاہور ہے
برسات میں کچھ اور ہے
گرمی میں ہے تو کوہ مری، اے لیڈری اے لیڈری
مجھ پر بھی مشق ناز کر
احباب میں ممتاز کر
یا کچھ عطا اعزاز کر
یا بخش کوئی فیکٹری، اے لیڈری اے لیڈری
بہ شکستہ پا، لاغر تنم
در کوچہ ات افتادہ ام
باشد کہ یک نگہ کرم
بر جان آزر عسکری، اے لیڈری اے لیڈری

آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم مرحوم سردار عبدالقیوم خان نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں ایک نوٹیفیکیشن ایشو کروایا جس کے تحت آزاد کشمیر کے ملازمین پر لازم ٹھہرا کہ وہ دفتروں میں قومی لباس ہی پہن کر آئیں، انگریزی لباس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ سرا سر ایک مضحکہ خیز بات تھی کیوں کہ اس کے پیچھے وہی نمائشی لیپا پوتی کی سوچ تھی جس کے تحت حاکم وقت اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے انہیں ادھر ادھر کی بے کار چیزوں میں الجھا دیتے ہیں۔ خیر یہ بات تو ایک علیحدہ بحث کی متقاضی ہے، مگر یہاں اس حوالے سے جناب آذر عسکری کا رد عمل جن اشعار کی صورت میں آیا، اس کا تذکرہ مقصود ہے۔

افسری کا لطف اور افسر طرازی کے مزے
پوچھ اس افسر سے جو افسر سے گاما ہو گیا
روز پہنے گا اسے جو کہ لباس عید تھا
سالنامہ تھا کبھی، اب روزنامہ ہو گیا

اور میر تقی میر کی پیروڈی کرتے ہوئے اس موضع پر یوں خامہ فرسائی کی۔
کتنے سمارٹ لگتے تھے کچھ روز پیشتر
شہرہ کسی کے سوٹ کا نزدیک و دور تھا
کرتا پہن کے اپنا سا منہ لے کہ رہ گئے
”صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا“

حسن و عشق کی چشمک پر ان کا شاعرانہ اسپ تخیل دوڑتا ہوا کچھ اس طرح کے اشعار کی خبر لاتا ہے۔
حسن کی فطرت کو چسواں آم ہونا چاہیے
عشق کی منڈی میں پھر نیلام ہونا چاہیے
عشق بازی کے لئے سرسام ہونا چاہیے
یوں نہ ہو تو پاگلوں میں نام ہونا چاہیے

اور اس مزاحیہ غزل کے بیچوں بیچ ایک نہایت خوب صورت شعر قدرے سنجیدگی کے ساتھ کچھ یوں کہا۔
اے مسافر دیکھ پھر منزل قریب آنے کو ہے
پھر شکار گردش ایام ہونا چاہیے

کشمیری النسل ہونے کی وجہ سے آذر صاحب کو ہریسہ اور کشمیری نمکین چائے بہت پسند تھی۔ ہریسہ انہیں اکثر مظفر آباد کی مشہور و معروف مدینہ مارکیٹ کے رہائشی اور مظفر آباد کی جانی پہچانی شخصیت خواجہ محمد عبداللہ صاحب کے گھر سے بھیجا جاتا اور نمکین چائے سے ان کی تواضع ہمارے ایک اور قابل قدر دوست ارشاد احمد پیرزادہ صاحب (جن کے ہاں وہ بطور کرایہ دار رہائش پذیر تھے ) کے گھر سے روزانہ ہوا کرتی تھی۔ اس پر جناب آذر صاحب نے یہ قطعہ ارشاد فرمایا۔

خوش نصیبی نہیں تو کیا ہے پھر
کم نہیں ہے یہ جام و بادہ سے
بھیجتا ہے ہریسہ عبداللہ
چائے آتی ہے پیرزادہ سے

ایک پرانے پاکستانی فلمی نغمے۔ میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا۔ کی پیروڈی کرتے ہوئے ایک جز وقتی عاشق، جو تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کا قائل ہوتا ہے، کے خیالات کی ترجمانی کچھ یوں کرتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے
ٹیڈی پتلون کوئی سلوا لوں
اس سے پہلے کہ تجھ کودے کر دل
تیرے کوچے میں خود کو پٹوا لوں
اس سے پہلے کے تیری فرقت میں
خود کشی کی سکیم اپنا لوں
اس سے پہلے کہ اک تیری خاطر
نام غنڈوں میں اپنا لکھوا لوں
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
تجھ کو آگاہ کیوں نہ کر دوں میں
اپنے اس انتظام سے پہلے
مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے
اپنی مرگ حرام سے پہلے
کوئی ایسی ٹرین بتلا دے
جائے جو تیز گام سے پہلے
آج کے اس ڈنر کو بھگتا کر
کل کسی وقت شام سے پہلے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا
ہر تعلق کو توڑ جاؤں گا
دل کی گردن مروڑ جاؤں گا
سیدھا موضع کروڑ جاؤں گا،
کل کسی وقت شام سے پہلے

جناب آذر کی شاعری کا یہ چھوٹا سا نمونہ یکے از مشت خروارے والا معاملہ ہے۔ مگر اس چھوٹے سے نمونے سے بھی ان کے شاعرانہ کمالات کا اظہار بھرپور طریقے سے ہو جاتا ہے۔ چونکہ ہماری یاداشت اتنی اچھی نہیں رہی ) کسی زمانے میں ان کی پوری کتاب ہمیں حفظ تھی ( ہمارے کمزور حافظے کی وجہ سے آذر صاحب کا کلام نقل کرنے میں جو غلطیاں ہم سے ہوئیں وہ ان کے فرزندِ جلیل ابراہیم گل صاحب جو خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں، کی کمال مہربانی سے درست کر دی گئی ہیں۔ شکریہ گل جی۔

آخر میں ہم حکومت آزاد کشمیر سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جناب آذر عسکری کے کلام اور ان کے حالات زندگی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بطور نصاب پڑھانا لازم قرار دے تاکہ کشمیر کے اس عظیم شاعر کا فن امتداد زمانہ سے گوشہ گم نامی میں نہ کھو جائے جو کہ نہ صرف جناب آذر عسکری مرحوم بلکہ ہماری موجودہ اور آنے والی ادب شناس نسلوں کے ساتھ ایک زیادتی ہو گی۔

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments