چنائی ریل


چنائی آمد : جو کبھی مدراس تھا، جہاں قلی بھی چار زبانیں بول سکتا تھا اور ریلوے سٹیشن پر خواتین قلی بھی موجود ہوتی ہیں۔

1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

ہماری ٹرین بروقت چنائی پہنچ گئی۔ ہم نے اپنے بھارتی ہمسفروں کو خدا حافظ کہا۔ اس وقت موبائل فون کا اتنا رواج نہیں تھا، اس لیے رابطے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ دیر پا تعلق قائم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بہانہ نہ ہو تو اس طرح کی ملاقات کا اثر اگلے چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ ہمارا اور بھارتی دوستوں کا یہ اکتیس گھنٹوں کا سفر بہت ہی اچھا گزرا۔ بہترین سفری سہولتوں کی وجہ سے ہمیں کوئی دقت نہ ہوئی۔ راستے میں کوئی ایسا واقعہ بھی پیش نہیں آیا جو ہمارے لیے کسی مشکل کا باعث بنتا۔ یہ طویل سفر بخیر و عافیت طے ہونے پر ہم سب نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا اور اپنی اپنی راہ لی۔

ہمارا یہ سفر نیو دہلی سے شروع ہوا، پھر ہم ہریانہ سے گزرے، اترپردیش بھی ہمارے راستے میں آیا، مدھیہ پردیش بھی ہم نے دیکھا، کچھ وقت ہم نے تلنگانہ میں بھی گزارا اور پھر آندھرا پردیش سے ہوتے ہوئے ہم تامل ناڈو پہنچ گئے۔ اس دوران ہمیں ہندی، پنجابی، اردو، مراٹھی، تیلگو، تامل کے علاوہ کئی مقامی زبانوں سے بھی واسطہ پڑا۔ ان میں سے اکثر کا رسم الخط بھی ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ لوگوں کے رہن سہن لباس، کھانے پینے کا انداز اور بات چیت کا طریقہ ایک دوسرے سے خاصہ مختلف پایا جاتا ہے۔ میرے مطابق جو دیکھ کر سیکھا جاتا ہے وہ کتابیں پڑھ کر نہیں سیکھا جا سکتا۔ اس سفر نے ہمارے علم اور ہماری سوچوں میں بے حد اضافہ کیا اور ہمیں بھارت کے ایک ایسے حصے کو بہت ہی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس کے بارے میں ہماری معلومات بہت ہی محدود تھیں لیکن جسے دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا۔

ہم لوگ جب ریلوے سٹیشن سے باہر نکل رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ سوائے چند قلیوں کے، کسی کے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔ ان کی جسمانی حالت بھی کافی کمزور نظر آتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا، حالات کافی تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہاں پر ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

ہماری کسی ہوٹل میں بکنگ نہیں تھی اور ہمیں کوئی ایسا کاؤنٹر بھی نظر نہ آیا جہاں سے اس طرح کی کوئی مدد مل سکتی۔ ان حالات میں ہم نے ایک قلی سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک طرف ایک قلی کھڑا تھا جس کے پاؤں میں چپل بھی تھی اور اس کی جسمانی حالت بھی یہ بتا رہی تھی کہ وہ قلیوں کا کوئی ٹھیکیدار ہے۔

اب مجھے یہ دقت پیش آئی کہ میں ان صاحب سے کس زبان میں بات کروں؟ کیونکہ اس علاقے کی زبان تامل ہے جو ظاہر ہے ہم میں سے کسی کو بھی نہیں آتی تھی۔ ہندی بولنے والے لوگ اردو بڑی اچھی طرح سے سمجھ لیتے ہیں۔ ہم انگلش میں ہی بات کر سکتے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ان صاحب سے انگریزی میں کہا کہ کیا آپ انگلش بول سکتے ہیں؟ انھوں نے مجھے خوبصورت انگلش لہجے میں جواب دیا کہ کیوں نہیں، میں ہندی، انگلش، تامل اور تیلگو سمیت چار زبانیں جانتا ہوں۔ آپ مجھ سے کس زبان میں بات کرنا پسند کریں گے؟

میں اس جواب کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ شخص اپنی حلیے اور چال ڈھال سے کوئی پڑھا لکھا شخص نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ یہ قلی بہت ہی خوبصورت انداز سے انگلش میں بات کر رہا تھا۔ جس سے مجھے لگا کہ وہ کسی سکول سے پڑھا ہوا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر ہندی یعنی اردو کی بجائے انگریزی میں بات چیت کی۔ اس کی انگریزی نے مجھے یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ہندوستان میں انگریز سترہویں صدی کے آغاز میں آئے اور 1947 ء میں خود تو چلے گئے لیکن اپنی زبان چھوڑ گئے جو آج بھی برصغیر کے ہر کونے میں بولی جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں تہذیبوں کے اثرات۔

وسطی ایشیا ء اور افغانستان سے آ کر صدیوں حکمرانی کرنے والوں کی زبان بولنے والا علاقہ پورے برصغیر میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ قلی صاحب ہمارے ساتھ نہایت ہی احترام سے پیش آئے اور ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ہماری بات بھی کروائی۔ اس طرح ہم اپنے ہوٹل کی طرف چل پڑے۔

قلی کا لفظ پچھلی دو صدیوں سے ان لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو ریلوے سٹیشن پر مسافروں کا سامان اٹھاتے ہیں۔ انھوں نے ایک سرخ رنگ کی قمیض پہنی ہوتی ہے جس سے ان کی پہچان میں آسانی ہوتی ہے۔ میں نے جب لفظ قلی کے بارے میں جاننا چاہا کہ یہ لفظ کب، کیسے اور کہاں سے شروع ہوا تو پتہ چلا کہ جب انگریز مدراس میں آئے اور انھوں نے یہاں ریل کا نظام شروع کیا تو انھیں ایسے لوگ درکار تھے جو ان کا سامان اٹھا سکتے ہوں۔ انھوں نے کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے بھرتی کیا اور انھیں قلی کا نام دیا۔ قلی حضرات کو کوئی تنخواہ نہیں ملتی لیکن وہ ایک معاہدے کے تحت ریلوے سٹیشن پر کام کرتے ہیں۔ کوئی عام مزدور ریلوے سٹیشن پر مزدوری نہیں کر سکتا۔

میرے خیال میں ایسا سامان کی حفاظت کے نقطۂ نظر سے کیا ہو گا۔ ہندوستان میں مدراس وہ پہلا سٹیشن ہے جہاں قلی حضرات کو بھرتی کیا گیا اور ان سے سامان اٹھانے کا کام لیا گیا۔ ابھی حال ہی میں، میں نے مدراس ریلوے سٹیشن کی چند تصاویر دیکھی ہیں۔ ان تصویروں سے پتہ چلا کہ اب عورتیں بھی قلی کا کام کرتی ہیں۔ انھوں نے بھی سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں خاتون مسافر کسی مرد قلی کی نسبت خاتون قلی سے ہی خدمات لینے میں سہولت محسوس کرتی ہیں۔

اس لیے قلی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا کہ بھارت میں قلی کے لباس اور نام کی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے۔ قلی کا سرخ لباس بھی ایک خاص معنی رکھتا ہے۔ آپ نے اس بات پر غور کیا ہو گا سرخ نشان دور سے نظر آتا ہے۔ اسی لیے ہمارے ٹریفک کے سگنل سرخ رنگ کے ہوتے ہیں۔ اسی کو بنیاد بنا کر انگریزوں نے قلی کا لباس سرخ رنگ کا بنایا تاکہ آپ اسے بھیڑ میں بھی آسانی سے پہچان سکیں۔

ایک سو چالیس سال پہلے انگریز نے ہمارے ہندوستانی ان پڑھ مزدور کے لیے جو لفظ استعمال کیا اور جو لباس اسے فراہم کیا، آج بھی اسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ وہ بھلے چار زبانیں جانتا ہو یا چودہ، اس سے اس کے نام اور کام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ابھی تک سرخ شرٹ پہن کر لوگوں کا سامان اٹھانے پر معمور ہے۔ اس کی نہ کوئی تنخواہ ہوتی ہے نہ پینشن۔ اسے ریلوے سٹیشن کی طرف سے ایک نمبر الاٹ ہوتا ہے جو اس کی پہچان بن جاتا ہے۔ وہ اکثر یہ نمبر اپنے بازو پر باندھے ہوتے ہیں۔ ہم اس کا نام تو بھول جاتے ہیں لیکن نمبر یاد رکھتے ہیں۔

نام سے نمبر آگے نکل گئے۔ یہ تو ہوتا ہے ان کے لیے جن کا کوئی مقام نہیں ہوتا!

میں نے دیکھا ہے کہ اب کئی جگہوں پر عام مزدور کے لیے بھی قلی کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسے لاری اڈہ وغیرہ لیکن وہاں قلی کا نمبر بھی نہیں ہوتا اور اس کا کوئی خاص لباس بھی نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments