سی پیک اور پاکستان


برکس پانچ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں برازیل، روس، بھارت، چین BRIC اور جنوبی افریقہ کا مخفف ہے۔ گولڈ مین کے ماہر اقتصادیات جم او نیل نے 2001 میں BRIC (جنوبی افریقہ کے بغیر) کی اصطلاح وضع کی، اور یہ دعویٰ کیا کہ 2050 تک چار برک معیشتیں عالمی معیشت پر حاوی ہوجائیں گی۔ اس کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی۔ 2009 کے بعد سے، برکس ممالک کی حکومتیں باضابطہ سربراہی اجلاسوں میں سالانہ ملاقات کرتی رہی ہیں۔ جنوبی افریقہ کی شمولیت سے پہلے پہلے چار کو ”BRIC“ کے طور پر گروپ کیا گیا تھا۔

جنوبی افریقہ کے داخلے سے 2010 میں یہ BRICS بن گیا۔ ان پانچ ممالک کا مشترکہ رقبہ 39,746,220 ( 15,346,101.0 sq mi) ہے اور ایک اندازے کے مطابق کل آبادی تقریباً 3.21 بلین ہے، یا دنیا کی زمینی سطح کا تقریباً 26.7 % اور دنیا کی آبادی کا 41.5 %۔ پانچ میں سے چار اراکین آبادی، رقبے اور جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہیں، سوائے جنوبی افریقہ کے جو دونوں میں تئیسواں ہے۔ برکس کا سالانہ کانفرنس ہر سال منعقد ہوتا ہے۔

14 ویں برکس کانفرنس چین کے دارالحکومت بیجنگ میں 23 اور 24 جون 2022 کو منعقد ہوئی۔ جس میں برکس کے پانچوں ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ یہ ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئی ہے۔ جب برکس کے اہم رکن روس پر یوکرین جنگ کی وجہ سے معاشی پابندیوں کا سامنا ہے۔ دوسری طرف کورونا کے بعد دنیا بھر میں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ خصوصاً برکس کو بھی ان حالات کا سامنا ہے۔ تو اس سال کانفرنس کا بنیادی ایجنڈا عالمی ترقی کے نئے دور میں اعلیٰ معیار کی BRICS شراکت داری کو فروغ دینا تھا۔

عالمی سطح پر برکس ممالک کی شراکت داری، خصوصاً کورونا کے بعد صورتحال پر غور و فکر، نئی راہوں کی تلاش اور یوکرائن جنگ کے بعد روس اور روس کے ساتھ تجارت، انٹرنیٹ، انسانی حقوق، دہشت گردی، فضاء میں تحقیق وغیرہ۔ 14 ویں برکس کانفرنس کے موقع پر میزبان ملک چین کے صدر زی جن پنگ نے کہا کہ ہماری دنیا آج ایک صدی میں نظر نہ آنے والی تیز رفتار تبدیلیوں اور COVID۔ 19 وبائی مرض کے مسلسل پھیلاؤ سے گزر رہی ہے۔ وہ انسانیت کو بے مثال چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں اور عالمی ترقی کے لیے عدم استحکام اور تبدیلی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرتے ہیں۔

سب سے پہلے، ہمیں یکجہتی کو برقرار رکھنے اور عالمی امن و سکون کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دنیا پر آج سرد جنگ کی ذہنیت، طاقت اور سیاست کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہے، اور مسلسل ابھرتے ہوئے روایتی اور غیر روایتی سلامتی کے خطرات گھرے ہوئے ہے۔ کچھ ممالک مکمل سلامتی کے حصول کے لیے فوجی اتحاد کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، دوسرے ممالک کو فریق چننے پر مجبور کر کے بلاک پر مبنی محاذ آرائی کو ہوا دیتے ہیں، اور دوسروں کے حقوق اور مفادات کی قیمت پر یک طرفہ غلبہ حاصل کرتے ہیں۔

اگر اس طرح کے خطرناک رجحانات کو جاری رہنے دیا گیا تو دنیا مزید انتشار اور عدم تحفظ کا مشاہدہ کرے گی۔ دوسرا، ہمیں ترقی کو فروغ دینے اور مشترکہ طور پر خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعاون کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ COVID۔ 19 وبائی بیماری اور یوکرین کے بحران کے امتزاج کے نتیجے میں عالمی صنعتی اور سپلائی چین میں خلل پڑا ہے، اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، اور کمزور بین الاقوامی مالیاتی اور مالیاتی نظام ہیں۔

ان تمام چیزوں نے دنیا بھر کی ترقی پر پرچھائیاں ڈالی ہیں، اور ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن جس طرح ایک بحران افراتفری کا باعث بن سکتا ہے، یہ تبدیلی کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ بہت کچھ اس بات پر سوار ہو گا کہ ہم بحران سے کیسے نمٹتے ہیں۔ اس سال، ہم نے سپلائی چینز پر تعاون بڑھانے پر برکس اقدام اور پائیدار ترقی کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری پر پہل کا آغاز کیا، کسٹمز کے معاملات میں تعاون اور باہمی انتظامی معاونت کے معاہدے اور فوڈ سیکیورٹی تعاون سے متعلق حکمت عملی کو اپنایا، اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا۔

پہلی بار موسمیاتی تبدیلی پر سطحی اجلاس۔ ہمیں صنعتی اور سپلائی چین کے رابطوں کو فروغ دینے اور غربت میں کمی، زراعت، توانائی، لاجسٹکس اور دیگر شعبوں میں مشترکہ طور پر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان نئے پلیٹ فارمز کا اچھا استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں نئے ترقیاتی بینک کی زیادہ ترقی اور نئے اراکین کو داخل کرنے کے لیے ایک مستحکم عمل کی حمایت کرنی چاہیے، اور برکس مالیاتی حفاظتی جال اور فائر وال کو سیمنٹ کرنے کے لیے کنٹینجنٹ ریزرو انتظامات کو بہتر بنانا چاہیے۔

ہمیں اپنے ملکوں کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور فنانسنگ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے سرحد پار ادائیگی اور کریڈٹ ریٹنگ پر برکس تعاون کو بھی بڑھانا چاہیے۔ ہمیں کھلے پن اور جامعیت کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور اجتماعی حکمت اور طاقت کو جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ برکس ممالک کسی بند کلب یا خصوصی دائرے میں نہیں بلکہ ایک بڑے خاندان کے باہمی تعاون اور جیت کے تعاون کے لیے ایک شراکت داری میں جمع ہوتے ہیں۔ 2017 میں Xiamen سربراہی اجلاس میں، میں نے ”BRICS Plus“ تعاون کا طریقہ تجویز کیا۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران، ”برکس پلس“ تعاون کو گہرائی اور وسعت ملی ہے، جس نے جنوبی۔ جنوب تعاون کی ایک اہم مثال قائم کی ہے اور ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان اتحاد کے ذریعے مضبوطی کی تلاش کی ہے۔ حالیہ برسوں میں، بہت سے ممالک نے برکس تعاون کے طریقہ کار میں شامل ہونے کو کہا ہے۔ تازہ خون لانے سے برکس تعاون میں نئی ​​جان ڈالے گی اور برکس کی نمائندگی اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا۔ اس سال ہم نے الگ الگ مواقع پر رکنیت میں توسیع کے سوال پر گہرائی سے بات چیت کی ہے۔

اس عمل کو آگے بڑھانا ضروری ہے تاکہ ہم خیال شراکت داروں کو جلد از جلد برکس خاندان کا حصہ بننے دیا جائے اس کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ بیجنگ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ جو مختلف نوعیت کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ اس کانفرنس میں کی گئی اہم بات NDB new development bank اور اس کے ممبران اور خواہشمند ممالک کا مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں معاشی ترقی کے حوالے سے دنیا کے ابھرتے ہوئے ممالک نے شرکت کی۔ اس بنک کا ہیڈکوارٹر شنگھائی میں ہے۔

جبکہ علاقی دفتر انڈیا میں بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس بنک کے ممبران میں برکس کے علاوہ ایران، متحدہ عرب امارات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان ابھرتے ہوئے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کیوں کہ کورونا کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان کی شرح ترقی 6 فیصد ریکارڈ کئی گئی۔ لیکن تعجب کا مقام ہے کہ پاکستان نے ابھی تک NDB میں ممبر شپ نہیں لی۔ حالانکہ پاکستان چین کا قریبی دوست ہے اور سی پیک بھی۔ برکس کے ممالک 40 فیصد رقبے پر پھیلے ہوئے ہے۔

لہذا سی پیک اس نظام کو مزید مربوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک طرف سی پیک میں افغانستان کی شمولیت سے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی ممکن ہو جائے گی تو دوسری طرف حالیہ دنوں میں ترکی کو بھی سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ جس سے ایران اور ترکی کے راستے یورپ تک سی پیک کی توسیع ممکن ہو جائے گی جس سے اس خطے میں ترقی، تجارت اور کاروبار کی نئی راہیں ہموار ہو جائے گی۔ جو کہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کا مقصد بھی ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ برکس ممبرشپ کے لیے اپلائی کرے۔ کیونکہ چین کی خواہش ہے کہ وہ نئے ہم خیال ممالک کو اس تنظیم کا رکن بنائے۔ پاکستان چین اور روس کے ساتھ پہلے سے شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کا بھی حصہ ہے۔ جتنی زیادہ تنظیموں میں ممبرشپ ہوگی اتنے زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ انڈیا کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ صرف برکس سے 17 بلین کے پراجیکٹ ملے۔ ترقی و تجارت کے نئے مواقع ملتے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی رکنیت پر انڈیا مخالفت کرے گا سی پیک منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک اہم منصوبہ ہے۔

اس منصوبے سے پاکستان میں مزید 700,000 ملازمتیں پیدا ہو گی۔ اس منصوبے سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں ترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔ چاروں صوبوں میں اکنامک زون بن رہے ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکی مداخلت سے آزاد ہو کر چین کے ساتھ دوستی کو فروغ دے۔ کیوں کہ ہماری ضروریات امریکہ سے نہیں چین سے وابستہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments