غتر بود


بات کس آزادی کی کروں، کیسے کروں اور اس کا مجھے نہیں پتا، مگر تقاضا حال کو عیاں کرنا میری کوشش ضرور ہے۔ ماضی قریب کو دیکھوں یا ماضی بعید کو حقیقی فرق نظر نہیں آتا۔ زمانہ حال کی المیہ صورتحال کا تذکرہ کروں ماضی سے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ وہ ”غتر بود“ ہے۔ حال کی حکومت ماضی کی حکومت پر المیہ ڈالتی ہے کہ وہ ذمہ دار ہیں۔ ماضی کی حکومتیں ماضی بعید پر الزام تراشی کرتی ہیں کہ وہ اس صورتحال کی ذمہ دار ہیں۔

ان سب کو چننے والی یہ قوم ہی ہے جن کو اگلے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے مگر اپنا شہتیر نظر نہیں آتا۔ تجزیہ نگاروں سے لے کر حکومتی اراکین تک سب ایک ہی فہرست میں شامل ہیں۔ دعوے ایسے کرتے ہیں کہ انبار لگاتے ہیں خدا معاف کرے۔ آپ اس بات کو دیکھ لیں حالیہ حکومت مسلم لیگ نون کی ہے۔ یہ ماضی کی حکومت پی۔ ٹی۔ آئی کو ساری صورت حال کا ذمہ دار قرار دے کر بری ہو رہی ہے۔ جبکہ ماضی میں دیکھیں تو پی۔ پی۔ پی کی حکومت بھی اسی طرح تھی۔ اور یہی نون لیگ والے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے کہ:

”میں نے زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر نا گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔“

مختصر یہ کہ ماضی سے ماضی تک چلتے جائیں تو براہ راست ہمیں انہی لوگوں کی صورتیں نظر آتی ہیں۔ کوئی نئی صورت یا چہرہ دکھائی نہیں دیتا، جب یہ چہرے منظر عام پر حکومتی سطح پر نظر آتے ہیں تو انہوں نے براہ راست ماضی کی حکومت کو نشانہ بنایا۔ ماضی میں بھی ان کے علاوہ کوئی چہرہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح ماضی سے ماضی اور ماضی بعید پر نگاہ دوڑائی تو براہ راست ہمارے ان آبا و اجداد پر باتیں جا کر ختم ہوتی ہیں جنہوں نے اس ملک کو حاصل کرنے میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ مطلب صاف ہے کہ اس کو حاصل کرنے والے ذمہ دار ہیں اس ساری صورتحال کے، نہ وہ ملک حاصل کرتے ہیں نہ یہ صورتحال جنم لیتی اور نہ ”غتر بود“ کا نظارہ دیکھنے کو ملتا۔

مجھے مستنصر حسین تارڑ کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ:

”پاکستان اس لئے آزاد ہوا کہ یہ لوگ نکمے ہیں ان کو الگ ہی رہنے دیا جائے تاکہ دوسروں کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔“

یہ صرف ماضی کے خیالات اور خوابوں میں رہنے والے لوگ ہیں۔ اس ساری بات کا ثبوت اب آپ خود بھی جان لیں تاکہ کسی بھی قسم کا شک نہ رہ سکے بجائے اس کے ہم دوسروں کو یا مصنف کو برا کہیں خود بھی ہوش کے ناخن لیں۔ ایف اے ٹی ایف ( ایف اے ٹی ایف ) کا زور و شور عروج پر ہے اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کے بڑے دعوے دار بینڈ باجا لیے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ یہ میری ( PMLN، PPP) کوشش کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب کبھی آرمی چیف بیان کر رہا ہے کہ یہ میری کاوش کا نتیجہ ہے۔

یعنی ہر کوئی اس کو اپنی ذاتی کاوش کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوشش میں مگن ہیں۔ سبھی اپنے نمبر بنانے اور اپنا رعب جمانے میں مصروف عمل ہے ان بڑے بڑے عہدوں پر براجمان اور نسل در نسل باپ دادا کی گھناؤنی حرکات کو پس پردہ کرنے کی آڑ میں اس ملک کے نظام کو ہی ”غتربود“ کر دیا گیا ہے۔ ان بڑے بڑے دعوے داروں کی کارکردگی کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں جس کو جاننا بے حد ہی ضروری ہے۔

1) پاکستان عالمی رینکنگ کے مطابق تعلیمی میدان میں اس وقت 125 ویں نمبر پر ہے یہ بھی ان لوگوں کا کیا دھرا ہے۔

2) پاکستان عالمی سطح پر ایمانداری میں 140 سے نمبر پر ہے یہ بھی۔
3) پاکستانی عدالتیں اپنی ہی عوام کو انصاف دینے میں دنیا کے 130 نمبر پر ہے۔
4) پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے 109 نمبر پر جو کہ دنیا کا کمزور ترین پاسپورٹ ہے۔
جبکہ

5) عالمی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستانی عوام بمع حکمران ہر سال حج و عمرہ ادا کرنے جاتے ہیں جو کہ ( 1,129,945 ) تقریباً تعداد ہر سال کی ہے۔ یہ تعداد دنیا کے پہلے نمبر پر ہے۔

یہ وہ بنیادی معلومات ہے جو تازہ ترین اور عالمی سطح پر ان لوگوں کے دعووں کو ننگا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ تمام تر رپورٹس ان لوگوں کی محنت، کاوش اور انتھک کوشش کا ثبوت ہے جس کو سنہری حروف میں لکھ کر گلے میں ڈال کر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ آج پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل رہا ہے یہ ہماری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ تو دوسری جانب ان کی سنہری کارکردگی وہ بھی ان کو دکھانا لازم ہے۔ ان کی زبان سے تو صرف ایک ہی فقرہ سننے میں کہ:

” پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے۔“

اس کا مطلب تو براہ راست واضح ہوا کہ بابا قائداعظم نے اور ان کے دوست احباب نے جو کیا غلط کیا تھا۔ مقصد تو صرف یہی صاف ہے میں اپنے استاد ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا قول دہرانا لازمی سمجھوں گا:

” عمروں کے گناہ عمروں سے معاف نہیں ہوتے۔“

اگر یہ لوگ ( PPP، PMLN، Askri، Judiciary) اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان کو اس ( ایف اے ٹی ایف ) سلسلے میں نکلوانے میں ہمارا ہاتھ ہے۔ تو ایمانداری میں 140 ویں نمبر پر، انصاف دینے میں 130 ویں نمبر پر، اپنے نظام تعلیم کو دنیا کے 125 ویں نمبر پر، اپنے ہی پاسپورٹ کو دنیا کے 109 نمبر پر کروانے میں ان کے کردار ہیں۔ جس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھ لے اور جن کے کان ہوں وہ سن لے جو بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں یہ بھی انہی کا کیا دھرا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments