​​دنیا بھر میں ہتھیاروں پر اخراجات بلند ترین سطح پر


مانا جاتا ہے کہ جب تک کسی ملک کی معیشت مضبوط نہیں اس کا دفاع بھی طاقت ور نہیں ہو سکتا اور دفاع کی مضبوطی کے لئے معیشت کا طاقت ور ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے جزو لاینفک ہیں تاہم معیشت و دفاع اسی صورت مضبوط ہو سکتا ہے جب سیاسی استحکام ہو۔ روس۔ یوکرین جنگ سے عالمی منظر نامے میں توانائی کے بحران اور اجناس کی گرانی و کمیابی نے ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ممالک کے لئے امتحان کھڑا ہوا ہے۔

جنگ کی مضر اثرات سے بڑی بڑی معیشتیں متاثر ہو رہی ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر مستقبل میں مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو کئی ممالک کی معیشتیں اپنے پیروں پر کھڑی نہیں رہ سکیں گی اور بحرانوں کا ایک سونامی کئی ممالک کو اپنے ساتھ تباہ کرتا چلا جائے گا۔ بظاہر تو روس نے یوکرین پر حملے کے بعد امریکی اور یورپی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کیا، جس کا مقصد روس کو معاشی طور پر کمزور اور عالمی تنہائی کا شکار کرنا تھا، لیکن اس کے منفی اثرات سے خود یورپ اور امریکہ بھی متاثر ہونے لگے ہیں۔ خیال رہے کہ روس، دنیا کو اجناس اور توانائی کا ایک بڑا حصہ برآمد کرتا ہے۔

یورپ، روس سے حاصل کردہ توانائی سے اپنی معیشت کو چلا رہے ہیں، یورپی یونین کے تمام ممالک کی متفق نہ ہونے تک روس پر پٹرولیم مصنوعات کی پابندی عائد نہیں ہو پا رہی نیز دوسری جانب یوکرین کی عسکری امداد میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور روس کو کمزور کرنے کے لئے ہر وہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جسے وہ قانونی اور جائز سمجھتے ہیں۔ تاہم سو روزہ جنگ کے بعد حیران کن صورت حال سامنے آئی ہے کہ جنگ کے باوجود روس نے اپنی توانائی برآمدات کا 61 فیصد ہدف حاصل کرتے ہوئے 93 بلین یورو ( 98 ارب ڈالر) کما لئے ہیں۔

جب کہ ڈالر کے مقابلے میں اس کی کرنسی میں بھی 2015 کے بعد حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا، اس کی بنیادی وجہ ڈالر کے بجائے متبادل کرنسی کے طور پر روسی کرنسی روبل میں خریداری کی شرط ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ روبل کی قدر میں اضافے کی سب سے اہم وجہ ماسکو حکومت کا یورپی اقوام کو گیس و تیل کو خریداری پر ادائیگیاں یورو کی بجائے روبل میں کرنے کا فیصلہ ہے۔ اس بات سے روس کے سب سے بڑے سبیر یا سی آئی بینک سے وابستہ اسٹریٹیجسٹ یوری پوپوف بھی اتفاق کرتے ہیں۔

روس کی مثال سامنے رکھتے ہوئے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی ملک کی معاشی حالت مستحکم ہو تو وہ اپنے آپ کو دفاعی بنیادوں پر مضبوط بنا سکتا ہے اور اس کے جنگ میں شامل ہونے سے بھی کوئی خاص خطرات بھی امنڈ نہیں آسکتے۔ لیکن اس جواز کا یہ ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنگ کو کسی بھی صورت اچھا گردانا جائے کیونکہ جنگ ہر حال میں تباہی، بربادی اور انفراسٹرکچر کو کمزور کرنے کے علاوہ عوام کے لئے مشکلات لاتی ہے۔ کسی بھی ملک کا دفاعی طور پر خود کو مضبوط کرنا بھی اس کی معاشی حالت سے جڑا ہوا ہے، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت امریکہ پوری دنیا میں کسی نہ کسی تنازع میں الجھا ہوا ہے، عالمی تنازعات اور کرونا وبا نے امریکی معیشت پر بڑا اثر ڈالا ہے۔

عالمی وبا کرونا نے بڑی بڑی ترقی یافتہ معیشتوں کو زمین پر گرا دیا ہے، امریکہ بھی اس وبا سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا، 2021 میں امریکی فوجی اخراجات 801 بلین ڈالر تھے، جو کہ 2020 کے مقابلے میں ایک اعشاریہ چار فیصد کم تھے، امریکی فوجی اخراجات 2020 میں جی ڈی پی کے تین اعشاریہ سات فیصد سے کم ہو کر 2021 میں تین اعشاریہ پانچ فیصد رہ گئے لیکن اس کے باوجود امریکا فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے پانچ ممالک میں سر فہرست ہے۔

سال 2021 کے دوران دنیا بھر میں سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے ممالک بالترتیب امریکا، چین، بھارت، برطانیہ اور روس رہے۔ ان پانچ ممالک نے دنیا بھر کے مجموعی فوجی اخراجات کا 62 فیصد خرچ کیا۔ جبکہ صرف امریکا اور چین نے عالمی فوجی اخراجات کا 52 فیصد خرچ کیا۔ یہ مسلسل 27 واں سال ہے کہ چین کے دفاعی اخراجات بڑھ رہے ہیں اور گزشتہ برس یہ اخراجات 293 بلین ڈالرز رہے جبکہ روسی دفاعی اخراجات میں سال 2021 میں مسلسل تیسرے برس اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

امریکہ معیشت کے تحفظ کے لئے اپنے دفاع پر زیادہ توجہ دیتا ہے، تاہم اس کے مقابلے میں چین ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھرا ہے جو معیشت کی کامیابی کے لئے اپنی فوجی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ افرادی قوت کی بات کی جائے تو چین کی فوج کا مقابلہ کوئی دوسرا ملک نہیں کر سکتا، گلوبل فائر پاور کی رپورٹ کے مطابق چین کے فعال فوجیوں کی تعداد دو ملین ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک اعشاریہ چار ملین ہیں۔

دنیا کی عسکری قوت کے طور پر مجموعی قوتوں کی فہرست میں امریکہ، پہلے، بالترتیب روس اور چین دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا فوجی خرچ کرنے والے ملک چین نے 2021 میں اپنی فوج کے لیے تخمینہ 293 بلین ڈالر مختص کیے، جو کہ 2020 کے مقابلے میں چار اعشاریہ سات فیصد زیادہ ہے۔ چین کے فوجی اخراجات میں مسلسل 27 سالوں سے اضافہ ہوا ہے۔ 2021 میں چینی بجٹ 14 ویں پانچ سالہ منصوبے کے تحت سر فہرست تھا، جو 2025 تک رہے گا۔

روس نے بھی امریکہ کے مقابلے میں اپنی فوجی اخراجات میں دو اعشاریہ 9 فیصد اضافے کے ساتھ 65 اعشاریہ 9 بلین ڈالر کئے۔ یہ ایسے وقت کیے گئے تھے جب کہ وہ یوکرین کی سرحدوں کے پاس اپنی فوج تیار کر رہا تھا، روس کے فوجی اخراجات 2021 میں مجموعی جی ڈی پی کے چار اعشاریہ ایک فیصد تک پہنچ گئے۔ روس نے 2020 کے آخر میں 48 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ کیا جو بجٹ سے 14 فیصد زیادہ تھے۔ یہاں اب یوکرین کا تجزیہ کیا جائے تو اس نے 2014 میں کریمیا سے الحاق کے بعد فوجی اخراجات میں 72 فیصد اضافہ کیا تھا، تاہم 2021 میں فوج اخراجات کم ہو کر صرف 5 اعشاریہ 9 بلین ڈالر رہ گئے جو پھر بھی ملک کی جی ڈی پی کا 3 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔

پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کی بات کی جائے تو اس نے فوجی اخراجات میں سال 2021 کے دوران اپنی فوج پر 76 اعشاریہ 6 بلین ڈالرز خرچ کیے اور یوں یہ دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والا ملک رہا۔ بھارتی فوجی اخراجات سال 2020 کے مقابلے میں 0.9 فیصد زائد تھے جبکہ سال 2012 کے مقابلے میں 33 فیصد زائد ہیں۔ جب کہ دوسرے پڑوسی ملک ایران کا 2021 میں فوجی بجٹ چار سالوں میں پہلی بار 24 اعشاریہ چھ بلین ڈالر تک بڑھا۔

اسلامی انقلابی گارڈ کور کے لیے فنڈنگ 2021 میں، 2020 کے مقابلے میں 14 فیصد تک بڑھتی رہی جو ایران کے کل فوجی اخراجات کا 34 فیصد بنتا ہے۔ ان تمام ممالک کے مقابلے میں سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو فوجی اخراجات کرنے والے 40 ممالک کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جو 2020 کے مقابلے میں ایک درجہ نیچے ہے، SIPRI ملٹری ایکسپینڈیچر ڈیٹا بیس اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک اسٹڈیز کے ملٹری بیلنس کے مطابق، پاکستان ( 2.54 جی ڈی پی خرچ کرتا ہے۔

اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تینوں پڑوسی ممالک کے خطرات کے باوجود پاکستان کے دفاعی اخراجات خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہیں، اس کی واحد وجہ معیشت کا کمزور ہونا ہے، جس کے لئے سیاسی عدم استحکام کو بڑھایا گیا۔ پاکستان کو اپنے دفاع کے لئے زیادہ فوجی اخراجات کی ضرورت ہے تاہم معاشی بحرانوں کے باوجود ملکی دفاع کے لئے افواج پاکستان کے کردار کو سراہا جا نا چاہیے، ملک کی سالمیت و بقا کے لئے ملکی معیشت کو جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ناگزیر ہے اور اس کے لئے سیاسی عدم استحکام کو تمام سٹیک ہولڈرز نے ملکی مفاد میں اکٹھے ہو کر ختم کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments