احتساب کے بغیر جمہوریت اور سیاست کا بیانیہ


پاکستان میں اصولی طور پر سیاست اور جمہوریت کی سیاسی بقا کے لیے ہمیں احتساب کے نظام کو ختم کر کے ترقی کے عمل میں شریک ہونا پڑے گا۔ کیونکہ یہ ہی سوچ اور فکر بنیادی طور پر ہماری ریاست، حکومت اور اداروں میں موجود فیصلہ ساز یا طاقت ور قوتوں میں پائی جاتی ہے۔ ان کے بقول اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں کرپشن جیسے معاملات پر زیادہ سنجیدگی، مزاحمت یا شور کرنے کی بجائے اسے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت کے طور پر سمجھ لینا چاہیے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار آصف علی زرداری کے بقول ہمیں احتساب یا معیشت میں سے کسی ایک کے راستے کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ان کے بقول اگر احتساب کو بنیاد بنایا گیا تو یہاں معیشت کی ترقی کا عمل پیچھے چلا جائے گا۔ مسلم لیگ نون کے وزیر احسن اقبال کے بقول دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو کرپشن کے باوجود ترقی کرتے ہیں۔ یعنی ان کے بقول کرپشن کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہمیں بس ترقی کے نقطہ پر زور دینا ہو گا۔ یہ بیانیہ محض ان دو افراد کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک بڑا طاقت ور طبقہ اسی سوچ اور فکر کی بنیاد پر اس بیانیہ کو فروغ دیتا ہے کہ کرپشن یا احتساب کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔

پاکستان میں مجموعی طور پر طاقت ور طبقہ کا ایک بنیادی مطالبہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے خاتمہ کا بھی ہے۔ اس نقطہ پر یہ سب متفق ہیں جن میں سیاست دان، بیوروکریٹ اور صنعت کار شامل ہیں کہ نیب معاشی ترقی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سابق وزیر اعظم خاقان علی عباسی کے بقول ہم سب کو مل کر نیب کا خاتمہ کرنا ہو گا وگرنہ دوسری صورت میں معیشت سمیت سیاست اور جمہوریت کا مستقبل بھی یہاں کبھی بھی روشن نہیں ہو سکتا ۔

بنیادی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نیب کے ادارے کا مقصد سیاسی مخالفین کو ڈرانا، بلیک میل کرنا، ان کی وفاداری کو بدلنا اور ان کو ناجائز مقدمات میں الجھانا ہے۔ اس دلیل کو تھوڑی دیر کے مان لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان اداروں کا سیاسی استعمال کون کرتا ہے۔ کیا محض اسٹیبلیشمنٹ یا ہر دور کی سیاسی حکومت بھی اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ اصل میں جب ہماری سیاسی کمٹمنٹ ہی احتساب کو یقینی بنانے کی نہیں ہے تو پھر محض پالیسی سازی، قانون سازی یا احتساب کے لیے اداروں کی تشکیل اور ان پر اربوں روپوں کے اخراجات کیا بوجھ کیوں اٹھایا جاتا ہے۔

کرپشن یا بدعنوانی کو جب ہم نے سماجی اور سیاسی طور پر قبول کر لیا ہے تو پھر اس عمل میں قانونی حیثیت بھی دے دیں تاکہ پورے معاشرے کو ہی اس دلدل میں دھکیل دیا جائے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ منطق کیسے تسلیم کرلی جائے کہ کرپشن کو بنیاد بنا کر ترقی کی جا سکتی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں اربوں روپوں کی کرپشن اور کرپٹ لوگوں کا قانون کی گرفت سے بچ جانے کے باوجود ترقی کا عمل ہم کیوں نہیں دیکھ سکے۔

یہ منطق ہی قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کہ معیشت اور کرپشن کا باہمی تعلق ہے اگر اس کو بنیاد بنالیا جائے تو پھر اس کا بڑا سیاسی و مالی فائدہ ان ہی طاقت ور طبقات کو ہو گا جو ریاستی، حکومتی دولت کو اپنے حق میں کر کے قومی خزانے سمیت ملک کی معیشت یا سیاست دونوں کا بیڑا غرق کریں گے۔ لوگوں کو یاد ہو گا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون 2006 میں میثاق جمہوریت میں اسی نقطہ پر بڑا زور دیا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر سب سے پہلے نیب کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد باہمی مشاورت سے نیب کے مقابلے میں ایک آزاد، شفاف اور خود مختار احتساب کا نیا ادارہ بنائیں گے۔ لیکن وہ ایسا کر نہیں سکے اور کرنا بھی نہیں چاہتے تھے کیونکہ جب سیاست کی بنیاد ہی کرپشن اور عملاً بند عنوانی پر کھڑی ہو تو پھر احتساب کا موثر نظام کیسے ممکن ہو سکے گا۔

ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اس ملک میں جب بھی آپ احتساب کی بات کریں تو کہیں سیاست، جمہوریت، قانون، سیکورٹی، آزادی اظہار، کاروبار اور معیشت کی ترقی سب کو خطرہ پڑ جاتا ہے۔ ان طبقات کے بقول احتساب یا کرپشن کا نعرہ ہی نظاموں کی ترقی اور جمہوریت کے خلاف ہوتا ہے۔ یعنی ہم ہر ایک عمل میں سے ایک سازشی تھیوری کو تلاش کرتے ہیں اور اسی پر بیانیہ بنا کر احتساب کے نظام کو متنازعہ بنا کر پیش کر کے اپنے ذاتی و خاندانی مفادات کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

جو لوگ بھی اس ملک میں شفافیت، جوابدہی یا احتساب کی بات کرتے ہیں تو ان کو عملاً سیاست، جمہوریت کا مخالف اور اسٹیبلیشمنٹ کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس ملک میں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کی مجموعی اکثریت بھی ان ہی طاقت ور طبقات کی آلہ کار بن کر کرپشن اور احتساب کے نام پر ہمیں درس دینے میں ہی پیش پیش ہوتے ہیں کہ جمہوری عمل کو چلنے دیا جائے اور بلاوجہ کرپشن یا احتساب کو ترجیحی ایجنڈا نہ سمجھا جائے۔ دراصل ان ہی میں سے ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو خود کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کے ساتھ ملک کر خود بھی اس کھیل میں اپنے ہاتھ رنگتے ہیں۔

حال ہی میں موجودہ 13 جماعتی حکومتی اتحاد نے نیب میں کچھ اہم ترامیم کی ہیں جو بڑی دلچسپ ہیں۔ یعنی جن لوگوں پر الزامات تھے ان ہی طاقت ور حکمران طبقات نے اقتدار میں آنے کے بعد خود ہی کو این آر او دے دیا۔ یعنی ملزم ہی طے کر رہے ہیں کہ ہمارے جرائم کے خلاف کیا قانون سازی ہوگی اور کیسے ہم خود ہی اپنے آپ کو قانونی تحفظ دے سکتے ہیں۔ جو ترامیم پیش کی گئی ہیں ان جائزہ لیں تو کھیل کی اصل کہانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہم کیوں احتساب کے مخالف ہیں۔

اول تمام ترامیم یکم جنوری 1985 سے لاگو ہوں گی اس کا فائدہ تمام ملزمان کو ہی ہو گا۔ دوئم اہل خانہ کے اثاثے ملزم کے اثاثے تصور نہیں ہوں گے ) اس کو سمجھنا آسان ہے کہ یہ فائدہ کس کو دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ ( سوئم اثاثوں کو ناجائز ثابت کرنے کی ذمہ داری نیب پر ہوگی اور ملزم اس معاملے میں کسی بھی سطح پر جوابدہ نہیں ہو گا۔ چہارم ملزم کی جائیداد کی قیمت مارکیٹ کی بجائے ڈی سی ریٹ پر ہوگی یعنی اربوں کی جائیداد کروڑوں میں ظاہر کرو اور نکل لو۔

پنجم دوران کیس ملزم متنازعہ جائیداد بیچ سکتا ہے یعنی مدا غائب کرنے کی اجازت۔ ششم کیس ثابت نہ ہوتو نیب افسر کو پانچ برس سزا یعنی کوئی طاقت ور کا احتساب کرنے کی جرات ہی نہ کرے۔ ہفتم ریگولیٹرز اور بیوروکریسی کے غلط فیصلوں کو مکمل تحفظ، ہشتم بیرون ملک سے آیا ثبوت قابل قبول نہیں ہو گا۔ نہم ملزموں کی اثاثوں کی منی ٹریل دینے کی ذمہ داری بھی ختم، دہم اثاثوں کی تعریف میں تبدیلی اور نیب کو صدر کی بجائے وزرات داخلہ کے ماتحت کرنا اور بے نامی دار کی تعریف میں تبدیلی کی گئی ہے۔

تحفظ بھی عملی طور پر حکومت نے ان ہی لوگوں کو دیا ہے جو وہ خود ہیں اور موجودہ حکومت میں اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ اس پورے عمل سے نیب کی خودمختاری کو عملی طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح 90 روزہ ریمانڈ کو 14 روز تک محدود کرنا، وفاقی و صوبائی کابینہ، ایکنک اور دیگر ریگولیٹری باڈیز کے فیصلوں پر نیب کے دائرہ اختیار کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

یہ ساری حالیہ ترامیم ظاہر کرتی ہیں کہ اس ملک کے طاقت ور طبقات بشمول حکمران طبقات کس حد تک ملک میں شفافیت اور احتساب کے نظام کے حامی ہیں یا یہ ان کی اہم ترجیحات کا حصہ ہیں۔ اگر واقعی ان ہی ترامیم یا طرز عمل کے ساتھ ہم نے نیب یا ایف آئی اے سمیت دیگر احتساب کے اداروں کو چلانا ہے تو خدارا ان کو اداروں کو بند کریں اور قومی خزانے پر بوجھ ڈالنے کی بجائے کرپشن پر مبنی سیاست اور احتساب کے بغیر سیاسی نظام کی حمایت میں تحریک چلائیں۔

وہ سیاست دان سمیت سمیت طاقت ور طبقات جنہوں نے اس ملک کو ترقی دینی تھی اور معاشی طور پر اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا تھا وہی اگر کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کے ترجمان بن جائیں اور اپنی سیاسی تقریروں، واعظوں، لفظوں کی جگالی اور انتخابی منشور میں احتساب کو یقینی بنانا اور کرپشن کا خاتمہ یا منصفانہ معاشرے کی تشکیل یا شفافیت پر مبنی نظام جیسے نعروں کے ساتھ سیاسی کھیل کھیلنا ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس لیے جو لوگ بھی اس فرسودہ نظام، ڈھانچوں اور طاقت کے اہم مراکز یا سیاسی قیادتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملک میں احتساب کے نظام کو مضبوط بنائیں گے، محض ایک جذباتی اور جھوٹ پر مبنی نعرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments