جان سے پیاری


بس ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں پہنچا ہوں۔ آتے ہی دو عدد سرکاری ہرکارے معمول کی کارروائی کے لئے آ گئے تھے بس پھر کچھ بنیادی سوال جواب کے بعد ابھی فارغ ہوا۔ جاتے ہوئے ان کا احسان ہے کہ انہوں نے پوچھ لیا کہ کچھ چاہیے تو نہیں تو میں نے جھٹ سے قلم اور کاغذ کی فرمائش کردی۔ پہلے تو انہوں نے منع کر دیا پھر میرے اصرار پر انہوں نے کہا کہ اچھا پتہ کر کے بتاتے ہیں۔ خیر میری اچھی قسمت کے جلد ہی انہوں نے کہا کہ منظوری آ گئی ہے آپ قلم اور دوات نہ صرف استعمال کر سکتے ہیں بلکہ جہاں کچھ لکھ کر بھجوانا ہو تو یہ سہولت بھی آپ کو مل جائے گی۔ بس پھر کیا تھا۔ ان کے جاتے ہی قلم اور کاغذ لکھ کر بیٹھ گیا ہوں۔ اور سب سے پہلے تم کو خط لکھ رہا ہوں کیونکہ تم کو ابھی تک میرے جانے کی خبر نہیں ملی ہوگی۔

سب سے پہلے تو معذرت کہ بتا کر نہیں آیا۔ میں جانتا ہوں تم ابھی تک مجھ سے ناراض ہوگی اور غصہ بھی آ رہا ہو گا بہت۔ لیکن یقین مانو۔ چاہ کر بھی موقع نہیں ملا کہ تم کو بتا سکتا۔ میں نیند میں تھا کہ عملہ آ گیا کہ جناب کو فوری چلنا ہو گا۔ میں بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ کچھ مہلت مانگی تیاری کی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ فلائٹ تیار ہے بس آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ میں نے کہا بھی کہ اچھا ایک کال تو کرنے دیں۔ میں چاہتا تھا کہ تم کو بتا دوں لیکن کال تو دور کی بات انہوں نے میسج تک نہ کرنے دیا۔

خیر لمحوں ہی میں انہوں نے مجھے کسی مخصوص طریقہ کار سے گزارا۔ جس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ختم اب اگلا مرحلہ آگے والی ٹیم سرانجام دے گی۔ اور وہ مجھے یونہی چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ لیکن جیسے ہی اٹھنے کی کوشش کی تو ہل بھی نہ سکا۔ شاید صبح کے 5 بج رہے تھے۔ اور میں چاہ کر بھی اٹھ نا پا رہا تھا۔ خیر اس تمام صورتحال میں یہی سوچا کہ چلو 8 بجے تمہاری کال آئے گی تو تم کو بتا دوں گا۔

اس سب کے بعد کی صورتحال بہت ہی عجیب تھی۔ پل بھر میں مجھے لگا کہ میں خودبخود اڑنے لگا ہوں اور آسمانوں کی جانب جاتا جا رہا ہوں۔ اور راستے میں تمام چیک پوسٹوں پر میرا نام چیک کر کے مجھے آگے روانہ کر دیا جاتا تھا۔ خیر نہ جانے کتنی دیر کے بعد میں ایک جگہ پہنچا۔ جہاں ایک بہت بڑا دروازہ تھا۔ اور باہر لکھا تھا۔ انتظار گاہ۔

فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ پاس ہی پڑے فون کی سکرین پر جب میں نے نظر ڈالی تو سکرین پر تمہارا نام آ رہا تھا۔ وقت شاید ساڑھے آٹھ سے کچھ اوپر ہو گیا تھا۔ میں نے جونہی فون اٹھانے کے لئے ہلنے کی کوشش کی۔ تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا جسم جامد تھا اور میں بالکل بھی حرکت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ گھر میں کسی کو آواز دیتا ہوں کہ ذرا اٹھنے میں میری مدد کر دیں تو میرے حلق سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ فون مسلسل بج رہا تھا۔ کبھی میسج اور کبھی کال۔ لیکن میں چاہ کر بھی نہیں ہل پا رہا تھا۔ شاید پوری زندگی میں اس سے زیادہ بے بسی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ لہذا اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر کے وقت گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔

انتظار گاہ کا مرکزی دروازہ بہت بڑا تھا۔ اتنا بڑا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں اتنا بڑا دروازہ کبھی نہیں دیکھا یا سنا تھا۔ اور اس دروازے میں ایسے ایسے ہیرے جواہرات جڑے تھے کہ لگتا تھا بس ہیرے جواہرات سے ہی بنایا گیا ہو اس دروازے کو۔ اور آس پاس اتنی بھینی خوشبو آ رہی تھی کہ دل چاہے کہ بس اس خوشبو کو ہی سونگھتا رہوں۔ اسی اثنا میں مجھے بتایا گیا کہ ضروری رسمی کارروائی کے بعد دروازہ خود کھل جائے گا۔ لہذا میں انتظار کرتا رہا کہ کب دروازہ کھلے۔

بالا آخر دروازہ کھل ہی گیا۔ وہ سمجھے میں سو رہا ہوں اور ابھی تک دفتر نہیں گیا۔ اس لئے مجھے آواز دی کہ دفتر نہیں جانا۔ 11 بج گئے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جواب دوں لیکن کوشش کے باوجود بھی منہ سے الفاظ نہیں نکل سکے۔ تھوڑی دیر تک جب میں نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی کوئی حرکت کی تو مجھے بازو سے پکڑ کر ہلایا اور کہا کہ طبیعت ٹھیک ہے، 11 بج رہے ہیں آفس نہیں جانا۔ اس سب کے باوجود میں کوئی بھی جواب نہ دے سکا۔ ہاں البتہ اس سب کی وجہ سے میرا سر ایک جانب ڈھلک گیا۔

سر میرا ڈھلکا تھا۔ چلانا مجھے چاہیے تھا کہ یہ کون سا طریقہ ہے اٹھانے کا۔ لیکن الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق، شور وہاں مچ گیا کہ جلدی آ کر دیکھو ان کو کیا ہو گیا ہے۔ سب نے بار بار مجھے آواز دی نام سے پکارا، لیکن سب کچھ سنتے ہوئے بھی میں جواب نہیں دے سکا۔ خیر یہ تو ساری زندگی کا گلہ تھا مجھ سے کہ میں سنتا نہیں ہوں اور جواب نہیں دیتا۔ سو آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ جواب دینے کی کوشش کے باوجود میری آواز ان تک نہیں پہنچ رہی تھی۔

خیر کچھ دیر کی کوشش کے بعد جب میں نے جواب نہیں دیا تو مجھے اکیلا کمرے میں چھوڑ کر سب باہر چلے گئے اور ہاں جاتے ہوئے میرے منہ پر چادر ڈال گئے۔ موبائل فون کی گھنٹی دوبارہ بجنا شروع ہو گئی۔ میں موبائل کی جانب دیکھ نہیں سکتا تھا کیونکہ میرے منہ پر چادر تھی، لیکن مجھے یقین تھا کہ یہ تمہاری ہی کال ہوگی۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا، کہ تمہاری کال آئے اور میں اسے ریسیو نہ کروں۔ لیکن آج پتہ نہیں کیوں، کچ بھی میرے اختیار میں نہیں تھا۔ میں چاہ کر بھی تم سے بات نہیں کر سکتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس پل بس تم میری آنکھوں کے سامنے ہو، لیکن تم کو کیسے بتاتا، میں جامد تھا۔

اسی اثنا، میں دروازہ کھل ہی گیا، اور مجھے یوں لگا جیسے میں کسی تخیلاتی جگہ پر آ گیا ہوں، وہ جگہ کیسی تھی، شاید میرے الفاظ اس کو تحریر میں لانے سے قاصر ہیں، بس یوں سمجھو، اس سے زیادہ پاکیزگی کا احساس اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور پھر ایک ایک کر کے بہت سارے جاننے والے آ کر ملتے رہے۔ ایک عرصے بعد بہت سے لوگوں سے ملنے کی خوشی کا احساس الگ ہی تھا، لیکن میں ابھی تک شاید کسی عجیب سے احساس کے زیراثر تھا، اس لئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے، اور میں سوچ رہا تھا کہ کسی سے پوچھوں کہ اب مجھے کہاں جانا ہو گا۔

ان کو کہیں لے جانے کی ضرورت نہیں۔ اب کافی دیر ہو چکی ہے، میرا دوست بہت ہی اچھا نبض شناس تھا، اس نے میرے منہ سے چادر ہٹائے بغیر ہی میری نبض دیکھ لی تھی، کمرے کا اے سی بہت تیز چل رہا تھا، شاید اسی لئے اس نے کہا کہ یہ ٹھنڈے ہوچکے ہیں، میرے دوست نے سب کو کمرے سے جانے کا کہا، اس کے بعد اس نے ایک لمحے کو میرے منہ سے چادر ہٹائی اور مجھ پر ایک نظر ڈالتے ہی اگلے لمحے چادر میرے منہ پر واپس ڈال دی۔ جس کے بعد مجھے اپنے کمرے کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ ہاں جاتے ہوئے شاید وہ میرے موبائل فون کو دراز میں ڈال کر چلا گیا، کیونکہ مجھے اس کے جاتے ہی موبائل فون کی گھنٹی کی گھٹی گھٹی آواز آ رہی تھی۔

اس سب کے بعد ایک طویل روداد ہے، بارہا میرے کمرے کا دروازہ کھلتا رہا، بہت سے لوگ آتے، چادر ہٹاتے، میرا منہ دیکھتے، میں آواز بھی دیتا، تو مجھے جواب نہ دیتے، بس چادر واپس ڈال کر کمرے سے باہر چلے جاتے، ان سب آنے والوں میں بہت سے لوگ تھے، لیکن مجھے تو تمہارا انتظار تھا، کہ تم آ جاؤ، کیونکہ تم ہی تو ہو، جو میری آواز سن سکتی ہو، مجھے سمجھ سکتی ہو، اور مجھے اس سب سے باہر نکال سکتی ہو، لیکن سب آ گئے، تم نہیں آئیں، آتیں بھی کیسے، تم کو میری کیفیت معلوم ہوتی تو شاید تم ایک پل بھی نہ رکتیں، لیکن تم میرے پاس نہیں تھیں۔

اس دوران بہت سے مرحلوں سے گزارا گیا مجھے، میری چونکہ آنکھیں بند تھیں اس لئے یہ تو نہیں بتا سکتا کہ کون کیا کر رہا تھا، ہاں البتہ کون کیا کہ رہا تھا، یہ میں سب سن رہا تھا، لیکن جو آواز میں اپنے کانوں میں سننا چاہتا تھا، وہ تمہاری آواز میرے کانوں میں نہیں آ رہی تھی، اور پھر ایک ایک لمحہ گزرتے ہوئے روشنی کی آخری کرن نظر آنے تک میں تمہارا انتظار کرتا رہا کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے اور تم آ جاؤ، لیکن ایک آخر کار مکمل اندھیرا ہو گیا اور میں انتظار ہی کرتا رہ گیا۔

سلطان مغل
Latest posts by سلطان مغل (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments