غذر میں خودکشی کا بڑھتا رجحان اور ٹیکنالوجی کا ارتقا


ٹیکنالوجی ہماری زندگی پر بھرپور اثر انداز ہو رہی ہے ہر عمر کے لوگ اسے اپنے استعمال میں لا کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 15 سالہ سکول گوئنگ بچہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کو استعمال کر کے اپنا ہوم ورک کرتا ہے اور 80 سال کا بابا بیرون ملک کام کرنے والے بیٹے سے وڈیو کال پر بات کرتا ہے۔ دکاندار بھی اب کھاتا لکھنا اور مانگنا ٹیکنیکل طریقے سے ہی کرتے ہیں۔ ایک کلک پر اپنے پسندیدہ گانے، حمد و نعت سننے سے لے کر دوستوں کی حالت حاضرہ فیس بک پر دیکھنا یہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہوا ہے حالت یہ ہے کہ لوگ اب تسبیح بھی ڈیجیٹل ہی استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔

ہماری جدید ٹیکنالوجی تک رسائی، بندر کے ہاتھ ادرک کی گرہ آنے کے مترادف تو نہیں؟ ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ٹیکنالوجی کے ارتقاء سے مختلف ذہنی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ امریکہ کے ادارہ قومی ادارہ برائے صحت نے حال ہی میں اس پر ایک تحقیق جاری کی ہے جس کے مطابق ٹیکنالوجی کے ارتقاء سے انسان کے دماغی صحت پر اچھے یا برے اثرات پڑتے ہیں۔

غذر جو پچھلے دو سالوں سے ذہنی صحت کے حوالے سے سرخیوں میں رہا ہے اب تک کی غیر مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2021۔ 22 میں ضلع غذر میں 132 خودکشی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ غذر میں ہونے والے خودکشیوں کی ایک بڑی وجہ ٹیکنالوجی کا ارتقاء (Technology Evolution) ہے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اس پر ہم بعد میں آتے ہیں پہلے یہ دیکھتے ہے کہ کیا ٹیکنالوجی خودکشیوں کی وجوہات معلوم کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

غذر میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے واقعات پر جی بی گورنمنٹ نے 18 رکنی کمیٹی بنا دی ہے اس کمیٹی کے چیئرمین کرنل (ر) عبید اللہ بیگ (ممبر جی بی اسمبلی) ہے جبکہڈپٹی کمشنر غذر کو اس کمیٹی کا سیکٹری بنایا گیا ہے اس کمیٹی کے دیگر ممبران میں نزیر احمد (ممبر جی بی اسمبلی) ، نواز خان ناجی (ممبر جی بی اسمبلی) ، غلام محمد (ممبر جی بی اسمبلی) ، ایس پی غذر، سیکٹری سوشل ویلفیئر، نمائندہ کے آئی یو غذر کیمپس، نمائندہ اہل سنت والجماعت، نمائندہ اہل تشیع، نمائندہ اسماعیلی کونسل، ممتاز گوہر (سینئر جرنلسٹ) ، عنایت بیگ (سماجی کارکن) ، صنم بی بی، کنزہ فاطمہ (پارلیمانی سیکرٹری برائے ترقی خواتین) ، بار ایسوسی ایشن و پریس کلب کے صدور صاحبات شامل ہے۔ ڈپٹی کمشنر غذر کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ ہر طرح کی انتظامی مدد بھی فراہم کرے۔ 18 دنوں کی قلیل مدت میں اس کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ تیار کرنا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی ایسی ایک کمیٹی وجود میں آئی تھی اور سفارشات بھی پیش کی گئی پر اس پر عمل نہ ہو سکا۔

قارئین!

ٹیکنالوجی اس کمیٹی کی کیا مدد کر سکتی ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں ڈیٹا سائنس کو سمجھنا ہو گا۔ ڈیٹا سائنس کیا ہے؟ دراصل ڈیٹا سائنس کے ذریعہ کسی بھی ڈیٹا کو سمجھ کر اسے قابل استعمال معلومات نکالی جا سکتی ہیں۔ جیسا کہ غذر میں ہونے والی خودکشیوں کا تمام تر ریکارڈ موجود ہے بس اس کو اکٹھا کرنا ہے اور اس کا تجزیہ کرنا ہے جو ہمیں یہ بتائے گا کہ کتنے مرد اور کتنی عورتوں نے رواں سال خودکشی کی ہے، انتہائی قدم اٹھانے والوں میں سب سے زیادہ کس عمر کے لوگ ہے، کتنے ایسے لوگوں نے خودسوزی کی جو غیر شادی شدہ تھے، کس علاقے سے کتنے لوگوں نے یہ حرکت کی۔

ان تمام باتوں سے ہم اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ ہیں اس کی روک تھام کے لیے سب سے زیادہ کام کہا کرنا ہے؟ ہمارا بنیادی ارتکاز کون سی جنس ہو گی؟ ہمیں یہ بھی پتا چلے گا کہ کس عمر کے لوگوں میں یہ رجحان سب سے زیادہ پایا جاتا ہے ہم یہ بھی معلوم کر سکیں گے کہ سال کے کس موسم میں اور کس مہینے میں سب سے زیادہ کوششیں ہوئیں، یوں ہمیں یہ بھی پتا چلے گا کہ کتنے لوگ پڑھے لکھے اور کتنے لوگ ان پڑھ تھے۔ پھر ہمیں یہ بھی پتا چلے گا کہ لوگوں میں مقبول طریقہ واردات کیا ہے اور زیادہ تر لوگ کس جگہ جاکر اجل کو دعوت دیتے ہیں؟

کیا خودکشی کرنے والوں میں کوئی ایک چیز بھی مشترکہ ہے؟ کہی سے تو کوئی ایک تو بات ان سب میں مشترکہ ہوگی، ہمیں چیزوں کو فلٹر کرنا ہو گا، اگر ہمیں آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات سے بچنا ہے تو ڈیٹا سائنس کے ذریعہ ان لوگوں تک پہنچنا ہو گا جو مستقبل میں ایسا کر سکتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں سکولوں میں جا کر بچوں کو سمجھانا ہو گا، آپ ضرور جائیں لیکن کہی ایسا تو نہیں کہ جو لوگ ایسی کیفیت سے گزر رہے ہیں وہ سکول سے کوسوں میل دور ہوں؟

کہیں ہماری ساری توجہ کا مرکز بچے ہوں لیکن حقیقت میں زیادہ تر خودکشی کرنے والے بچے نہیں بلکہ نوجوان ہوں؟ کیا کسی کے پاس کوئی ایسی انفارمیشن موجود ہے جس سے سمت کا تعین ہو سکے کہ اس وقت کس طرف پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے؟ کس عمر کے لوگوں کو سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے؟ خودکشی کے وجوہات کی بات کرنے سے پہلے ہمیں خودکشیوں کے بارے میں معلومات کا حصول درکار ہے، ہمیں یہ انفارمیشن ضرور نکالنا پڑے گی کہ کتنے عاشقوں نے خودکشی کے لیے محبوب کی گلی کا انتخاب کیا، اور کتنوں نے مویشی خانے کو ترجیح دی۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈیٹا انالیسس کی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جن کا ٹرن اوور کئی ملین ڈالر میں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسی کمپنیاں شاید کم ہوں لیکن ایسے افراد ضرور موجود ہیں جو نا صرف اس فیلڈ کو سمجھتے ہیں بلکہ مہارت بھی رکھتے ہیں۔ کیا حکومتی سطح پر بننے والی یہ کمیٹی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے حقائق پر مبنی کوئی رپورٹ بنائے گی یا روایاتی طریقے سے خیالی وجوہات کی روشنی میں رپورٹ تیار کرے گی؟ یہ دیکھنے کے لئے کچھ وقت انتظار کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments