امریکی سپریم کورٹ اور عوام کا تعلق پیچیدہ کیوں؟


امریکی سپریم کورٹ، فائل فوٹو

(ویب ڈیسک) امریکہ میں اسقاطِ حمل کو حاصل آئینی تحفظ ختم کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ امریکیوں کی اکثریت میں غیر مقبول ہے، لیکن کیا اِس سے عدالت کو کوئی فرق پڑا؟

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں امریکی عوام اور عدلیہ کے تعلق پر کی جانے والی تحقیق اور مباحثوں کا جائزہ لیا گیا۔ مختصراً یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ ایک پیچیدہ تعلق ہے۔ گو کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عدلیہ میں عوام کابلاواسطہ کردار ہے، لیکن شائد اِس میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔

جمعہ کو ابارشن پر عدالتِ عظمی کے فیصلے پر تحریری رائے میں جسٹس سیموئیل الیٹو نے لکھا کہ عدالت “ہمارے فیصلوں کو بیرونی اثرات سے متاثر ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی، جیسے کہ ہمارے کام پر عوام کے ردعمل کے بارے میں تشویش۔”

مئی کے آغاز میں جب اس فیصلہ کا لیک ہونے والا پہلا ڈرافٹ امریکی ویب سائٹ “پولیٹیکو” پر شائع کیا گیا تو سپریم کورٹ کی ساکھ جو پہلے ہی عوام کی نظر میں متاثر ہو رہی تھی،عوامی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اُس میں مزید کمی واقع ہوئی۔

امریکی آئین کے ماہر اور نیو یارک یونیورسٹی کے لاءا سکول سے منسلک بیری فریڈمین نے دو ہزار نو میں اپنی کتاب “دی وِل آف دی پیپل” میں رائے دی تھی کہ عدلیہ اور عوام کی آراء میں کبھی کبھارتصادم ہوتا رہا ہے، تاہم گزشتہ ساٹھ بر سوں کے دوران یہ دونوں ایک “مصالحتی تعلق” میں جڑے رہے۔ اور عدلیہ عوام میں مقبول آراء سے بہت زیادہ منحرف نہیں ہوتی۔

تاہم ہارورڈ کینیڈی ا سکول میں پروفیسر مایا سین اِس تجویز پر سوال اٹھاتی ہیں۔”ہمارے پاس ایسا کوئی عدسہ موجود نہیں جو ہمیں دکھا سکے کہ ججز کیا کر رہے ہیں، یہ” مرغی یا انڈے” کی بحث کی طرح پیچیدہ ہے، ہم اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں، لیکن یہ مشکل عمل ہے۔”

کیا اسقاطِ حمل پر عوامی رائے واضح ہے؟

اسقاط حمل کے بارے میں عوام کی رائے میں کچھ فرق موجود ہے، تاہم عوامی رائے کے اکثرجائزے ، اسقاطِ حمل اور پچاس سال سے اُسے حاصل آئینی تحفظ کیلئے اکثریتی سپورٹ کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ مئی میں” اے پی اور نیشنل اوپی نیئن ریسرچ سینٹر” کے پول میں 70 فیصد امریکیوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اسقاطِ حمل کے آئینی حق کو ختم نہیں کرنا چاہیئے،اور صرف فیصد نے ابارشن کو مکمل طور پر غیر قانونی کہا، جبکہ چندامریکیوں نے اِس پر کچھ پابندیوں کی حمایت کی۔ پروفیسر مایا سین کے مطابق “رو بمقابلہ ویڈ” اُن مٹھی بھر مقدمات میں شامل ہے، جسے عوام پہچانتے اور سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ مانتے ہیں۔ یہ وہ کیس ہے، جسے نمٹاتے ہوئے 1973 میں سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔

البتہ گذشتہ سال AP-NORC ہی کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکی عوام کی اکثریت نے حمل کے دوسرے اور تیسرے ٹرائی میسٹر میں ابارشن کو تمام یا اکثر صورتوں کو غیر قانونی قرار دیا اور عوامی رائے اِس حوالے سے بھی منقسم تھی کہ آیا ایک حاملہ عورت کو کسی بھی وجہ سے ابارشن تک قانونی رسائی حاصل ہونی چاہیئے یا نہیں؟ پروفیسر مایا کہتی ہیں کہ “میرے خیال میں کئی اسے ایک پیمانے کی طرح دیکھتے ہیں، جسکے ایک پلڑے میں اسقاطِ حمل کے حق کا تحفظ ہے اوردوسرے میں ایک ممکنہ زندگی کا تحفظ زیادہ اہم ہوجاتا ہے، جب حمل آگے بڑھتا ہے”۔ اُنکے مطابق “رو بمقابلہ ویڈ” نے اسی طرح کی سوچ کو تقویت دی تھی۔

کیا عدالتی فیصلوں میں عوامی رائے کا براہ راست عمل دخل ہوتا ہے؟

تحقیق کاروں کے علاوہ کچھ ججز نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اکثر اوقات عدالتی فیصلے، عوامی آرا سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید یہ ربط بالواسطہ نہیں۔جیسے ٹیکساس یونیورسٹی کے پروفیسر جوزف یوراسمجھتے ہیں کہ ججز کی فیصلہ سازی میں اُنکی سیاسی اور جوڈیشل فلاسفی(قاعدوں) کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے، اور باقی تمام عوام کی ثانوی حیثیت۔ لوئیزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر الزبتھ لین کے مطابق “یہ جانچنا بہت مشکل ہے، کہ آیاعوام کی رائے یہ فیصلے کرواتی ہے یا ججز کی اپنی ترجیحات ہیں اور وہ بھی اُنہی عناصر کا سامنا کرتے ہیں، جن کا ہم میں سے اکثر کرتے ہیں۔”

کیا عوامی رائے عدالت کو بالواسطہ طور پر متاثر کرتی ہے؟

اسکالرز نشاندہی کرتے ہیں کہ عدالتی تقرریاں اورعدلیہ کی آئینی حیثیت، دونوں عوامل پر عوام کا بالواسطہ اثر ہوتا ہے۔

ایک جانب تو عوام اپنے ووٹوں سے صدر کا انتخاب کرتے ہیں جو ججوں کو نامزد کرتا ہے، اور پھر سینیٹرز، جو انکی تصدیق کرتے ہیں۔پروفیسر یورا کے مطابق،”بادی النظرمیں اگر یہ فرض کیا جائے کہ ججز کی ریٹائرمنٹ ایک معقول وقفے (گردش)سے جاری ہو، جو اُنکی جماعت کے مطابق اقتدار میں تبدیلی کی سوچ سے ہم آہنگ ہو، تو عدالت رائے عامہ کے ساتھ اپنی ہم آہنگی کو برقرار رکھ سکتی ہے۔”

تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں اِس سوچ کی جڑیں کمزور ہوئی ہیں، کیونکہ اتفاقًا یا سیاسی چالوں کی وجہ سے اِس وقت سپریم کورٹ میں تعینات ججز کی اکثریت، یعنی چھ ججز کی تقرری ریپبلکن صدور نے کی۔

سپریم کورٹ کے ججز اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ عوام اُن کے فیصلے پر کیا ردِ عمل دیتے ہیں، تاہم اسقاط حمل پر عدالت کے نئے حکم کے بعد یہ بات واضع ہوئی کہ سپریم کورٹ کے کچھ ججز اسے(عوامی رائے کو) اہم نہیں سمجھتے۔ریاست وِسکونسن کے مارکویٹ لاءا سکول میں قانون اور عوامی پالیسی کے پروفیسر چارلس فرینکلن نے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ جاری کر سکتی ہے، تاہم اُسکے نفاذ کیلئے عدالت کو عوام، سیاست دانوں اور یہاں تک کہ نچلی عدالتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔پروفیسر چارلس کہتے ہیں، “مجھے شک ہے کہ ججز ہر صبح اُٹھ کرعوامی رائے کے جائزے چیک کرتے ہوں کہ آیا عوام اُن کے فیصلوں سے متفق ہیں یا نہیں؟لیکن بلآخر عدالت کو اپنے فیصلوں کے نفاذ کیلئےعوامی حمایت کی ضرورت رہتی ہے۔”

ٹیکساس یونیورسٹی کے پروفیسر جوزف یورا کہتے ہیں کہ عدالت کو کس حد تک عوامی حمایت کی ضرورت ہے، شائد اِس میں تبدیلی آ رہی ہے، کیونکہ ملک میں گہری ہوتی سیاسی تقسیم کی وجہ سے عوام یا منتخب نمائندوں کے رد عمل کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔اور “ضروری نہیں کہ ایک متنازعہ یا غیر مقبول فیصلے پر دو جماعتی اتحاد کا غم و غصہ سامنے آئے۔”

کیا عدالت پر عوام کا اعتماد کم ہونے سے کوئی فرق پڑتا ہے؟

امریکی سپریم کورٹ کے بارے میں تاریخی طور پر عوام کی مثبت رائے رہی ہے۔تاہم گذشتہ سال سے کئے جانے والے پولز میں یہ بات سامنے آئی کہ عدالت کی مقبولیت میں کمی ہو رہی ہے، بالخصوص اسقاطِ حمل کے بارے میں ججز کی رائے کا مسودہ لیک ہونے کے بعد۔لیکن کیا عوامی اعتماد کی کمی سے عدالت کو کوئی فرق پڑتا ہے ؟ پروفیسر فرینکلن کے مطابق “عدالت کی تکریم کا تصور یہ تھا کہ وہ اکثریتی رائے کے خلاف فیصلہ دے کر بھی اپنی ساکھ بنائے رکھے۔”

سپریم کورٹ کی لبرل جج جسٹس سونیا سوٹومایور نے حال ہی میں عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کی ضرورت پر زور دیا۔ جبکہ عدالتِ عظمیٰ کی ایک اور لبرل جج جسٹس ایلینا کیگن نے 2018 میں اِسی خیال کی تشریح کچھ یوں کی “آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس فوج نہیں ہے۔ ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے۔ لوگوں سے اپنی پسند کے مطابق کام کروانے کا واحد راستہ یہی ہے کیونکہ وہ ہماری عزت کرتے ہیں۔”

واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر مائیکل سالمون نے وضاحت کی کہ رائے عامہ کے جائزوں میں سپریم کورٹ کیلئے نظر آنے والی “خصوصی “حمایت، اُنکے فیصلوں کے رد ِ عمل میں بآسانی تبدیل ہو سکتی ہے۔لیکن جمہوریت کیلئے اِس ادارے پر یقین، تاریخی طور پر برقرار رہا ہے۔اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ اسقاطِ حمل پر عدالت کا حالیہ فیصلہ، اِس حمایت پر اثر انداز ہوگا۔”عدالت کی بیان بازی اور اُسکے بہت سے فیصلوں کی “ہائی پروفائل ” نوعیت کی وجہ سے،یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم لوگ عدالتِ عظمی کیلئے اپنے لچکدار رویے کی آخری حد تک پہنچ چکے ہیں؟

(اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ سے لیا گیا ہے)

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments