عالم دین کو تخت پر لانا ہے


پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ جس کی 96.2 % آبادی مسلمان ہے۔ اور پاکستان کے آئین میں قرارداد مقاصد پاکستان کے آئین کی روح ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 227 کے تحت کوئی بھی قانون سازی قرآن اور سنت کے خلاف نہیں کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں دوسری ترمیم جو 17 ستمبر 1974 کو کی گئی اس کے مطابق ”مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ کو ایک مانے اور نبی کریم ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرے۔ اس ترمیم کے تحت باقی تمام لوگ جو یہ حلف نہ دیں اور اپنے آپ کو قادیانی یا لاہوری یا احمدی کہیں وہ غیر مسلم کہلائے جائیں گے اور ان کو ریاست غیر مسلموں کے حقوق فراہم کرے گی۔

جب آپ اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے تو آپ کو یہ حلف دینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آپ پاکستان کا قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے جائیں تو یہ حلف دینا ایک مسلمان پر لازم ہو گا۔ اور جب آپ الیکشن میں حصہ لینا چاہیں تو یہ حلف دینا لازم ہو گا۔ حتیٰ کہ اب نکاح نامے میں بھی یہ حلف شامل کیا جا رہا ہے تاکہ غیر مسلم کی شناخت ہو سکے۔

پاکستان جس کی آبادی کا چھیانوے فیصد مسلمان ہوں اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے کے لئے حلفیہ اقرار لازم قرار دیا گیا ہو تو کسی بھی شخص یا جماعت کی جانب سے ایک مسلمان کو غیر مسلم قرار دینا کہاں کا انصاف ہو گا۔ کیا مسلمانیت صرف اسلامی جماعتوں سے وابستگی کا نام ہو گا؟ یا اسلام صرف اسلامی جماعتوں کی میراث ہو گا؟ باقی تمام سیاسی جماعتیں غیر مسلم قرار دے دی جائیں گی؟

دین کو تخت پر لانا ہے جیسے سیاسی نعرے کی آج کل گونج ہے۔ کیا پاکستان میں اسلام ایک ممنوعہ شے ہے؟ کیا پاکستان کا وزیراعظم ایک غیر مسلم بن سکتا ہے۔ ؟ تو اس نعرے سے ہم کیا مراد لیں۔ ؟ وزیراعظم پاکستان ایک مسلمان بن سکتا ہے اور صدر پاکستان صرف ایک مسلمان بن سکتا ہے اور کون سا دین تخت پر آئے گا؟ یا لایا جائے گا؟

الحمدللہ چھیانوے اعشاریہ صفر دو فیصد لوگ مسلمان ہیں جنھیں کسی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اور لبیک یا رسول اللہ ﷺ کا نعرہ ہر مسلمان کا نعرہ ہے اور ہر پاکستانی کا نعرہ ہے۔ کیا یہ نعرہ کسی ایک سیاسی پارٹی کے لئے مختص ہو گیا ہے؟ کیا کسی سیاسی پارٹی کا ایسا طرز عمل مناسب ہے جو خود کو عاشق رسول ثابت کرے اور دیگر کو گستاخ۔ اور کسی بھی سیاسی جماعت کا خود پر اسلام کا پرچم لپیٹ کر دوسری سیاسی جماعتوں اور ان کے سیاسی ورکروں کو گستاخ رسول کے سرٹیفیکٹ دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ”تم ہر گز مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم دوسرے مسلمان کے لئے بھی وہ چیز پسند نہ کرو جو خود اپنے لئے پسند کرو۔“ تو جب آپ عاشق رسول ہیں تو بدگمانی سے بچو اور باقی سب کو بھی عاشق رسول سمجھو۔

سیاست کو سیاست کے طریقے سے کیا جائے نہ کہ سیاست کو مذہبی رنگ دے کر دوسرے کے مذہبی جذبات ابھار کر انھیں اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کیا جائے۔ میں مصطفی کمال کے اس بیانیے کی تائید کرتا ہوں کہ ”ہم اسلامی سیاسی جماعتوں سے زیادہ عاشق رسول ہیں، اور لبیک یارسول اللہ صرف کسی ایک سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں ہے یہ ہر مسلمان اور ہر پاکستانی کا نعرہ ہے۔“

الیکشن کمیشن پاکستان کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور ایسی سیاسی پارٹیاں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اور مذہبی جذبات ابھار کر ووٹ مانگتی ہیں اور قوم کو مذہب کے نام پر گمراہ کرتی ہیں۔ ان کے خلاف الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments