واپڈا کے مفت یونٹس کا ظالمانہ استعمال


بھابی صاحبہ سیدھا کچن تشریف لے گی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ان سے کہا آپ یہ پتیلہ چولے سے اتار لیں۔ وہ کہتی ہیں میں تو پتیلہ نہیں اتار سکتی۔ وہ ڈاکٹر صاحب جب تشریف لائیں 7۔ 2006 تربت میں اپنی فیملی کے ساتھ جاب کے سلسلے میں قیام پذیر تھا۔ وہاں ہمارے ساتھ کے اسپتال میں ایک اور ڈاکٹر فیملی رہائش پذیر تھی۔ ان سے علیک سلیک ہوئی تعلق بنا اور پھر گھر پر رات کے کھانے کی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر صاحبہ کچن میں مصروف تھیں۔ بڑی حیرت ہوئی۔ پوچھنے پر فرمایا چونکہ میرے والد صاحب واپڈا کے ملازم ہیں اس لیے ہم ہر چیز بجلی کے چولے پر پکاتے ہیں۔ لہذا ہم کو پلاس کی مدد سے اتارنا آتا ہے۔ روٹین سے کپڑے سے پکڑ کر اتارنے کی عادت نہیں۔ آگے فرماتی ہیں

میں تو اپنی شادی پر بھی اپنے ساتھ جہیز میں دو عدد پلاس لائی تھی۔ بیگم صاحبہ سن کر حیران رہ گئی۔ مجھے جب پتہ چلا تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔

سوچنے پر مجبور تھا یہ صرف ایک باورچی خانے کی مثال ہے اب گھر کی باقی آشیا پر نظر ڈالیں مثلاً اے سی کا استعمال پنکھے لائٹ وغیرہ پھر وہ تو بند نہیں ہوتے ہوں گے۔

یہ ایک گھر کی بات ہے۔ اب ایک کالونی اور پھر پورے واپڈا کے ادارے کے ملازمین بات کہاں پہنچے گی۔
اب وقت آ گیا ہے ارباب اختیار کو سوچنا ہو گا۔
اب یہ ظلم مزید نہیں چلنا چاہے۔
حدیث نبوی کا مفہوم ہے۔
اگر دریا کے کنارے وضو کرو تو بھی اتنا پانی استعمال کریں جتنی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments