مداری، بندر اور تماشائی


کسی نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہے کہ بھوک مداری کو لگی ہوتی ہے تو ناچنا بندر کو پڑتا ہے۔ آج کل کی سیاست جو کسی کھیل تماشے سے کم نہیں ہے میں مداری کا کردار موجودہ عہد کے سیاست دان نبھا رہے ہیں اور بہت خوب نبھا رہے ہیں جبکہ بندر کا کردار ازل سے لے کر ابد تک عوام نے ہی نبھانا ہے اور وہ بھی بہت خوبی سے اپنے کردار کو نبھا رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس سارے کھیل تماشے میں ریاست کا کیا کردار ہے تو ریاست اس کھیل میں تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ مداری کی بھوک کم ہی نہیں ہو رہی تو بندر کب تک ناچے اور پھر مداری کی بھوک کی خاطر کیوں ناچے اور تماشائی بھی کب تک یہ گھسا پٹا ایک ہی سین بار بار دیکھے۔ کیا کبھی تماشائی کو اکتاہٹ ہوگی اس مجبوری کے واہیات ناچ سے کیا کبھی تماشائی اس تماشے سے ہٹ کر کچھ نیا دیکھنے کی خواہش کرے گا اگر ہاں تو پھر کب کرے گا

گزشتہ سات دہائیوں میں 30 ہزار ارب کا قرضہ اور گزشتہ تبدیلی سرکار کے دور میں مزید 22 ہزار ارب روپے قرضے میں اضافہ یعنی کل ملا کر کم وبیش 53 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا۔ مگر اس سب کے باوجود مداری کی بھوک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور بندر ہے کہ ناچے جا رہا ہے۔ ڈگڈگی بج رہی ہے اور بندر کی اچھل کود جاری ہے کبھی ماڈریٹ روشن خیالی کے نام پر تو کبھی نئے ملک کی تعمیر کے نام پر رقص جاری ہے۔ اور ستم یہ کہ نا تو ماڈریٹ ہوئے نا روشن خیال اور نا ہی نیا ملک بنا سکے جبکہ تماشائی ہے کہ لطف ہی اٹھائے جا رہا ہے

سوچنے کی بات ہے کہ اب سے تین ماہ قبل تک کم وبیش ہر مداری کو آزما لیا گیا۔ کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ہر تسلی جھوٹی ہر دلاسا پرفریب ہر وعدہ بدنیتی پر مبنی ثابت ہوا۔ اب تو عالم یہ ہے کہ نیا مداری ہی کوئی نہیں ملا تو ایک بار پر پرانے مداری کو دعوت دی گئی ہونا اب بھی کچھ نہیں ہے۔ نا اہلی اور نالائقی سے بھرپور معاشی سفر نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک چلانے کے لیے پیسے تک نہیں اور ساری صلاحیت صرف اور صرف نئے قرضوں کے حصول پر مرکوز ہے۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا حاکموں کے یخ بستہ ایوانوں میں بیٹھے مداری مزید قربانیوں کا تقاضا کر رہے ہیں

دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھانے والے ایک وقت کے کھانے پر آ گئے اس کے علاوہ اور کیسی قربانی درکار ہے۔ قابل علاج بیماریوں کے باوجود زندگی کی بازی ہارنے والوں سے مزید کیا چاہیے۔ یہ کہاں کہاں صاف ہے کہ غلطی مداری کرے اور سزا بندر بھگتے۔ معاشی پروگرام خود نہیں چلا سکتے، بلکہ معاشی پروگرام دے نہیں سکتے قرض کی مے پی کر بہکنے والے کہاں کے مسیحا اور کدھر کے رہنما۔ مگر کیا کر سکتے ہیں ڈگڈگی ان کے ہاتھ میں گردن میں پڑے پٹے کی رسی ان کے ہاتھ میں سو جب چاہے رسی کو جھٹکا دے کر کہے کہ صاحب کو سلام کرو اور بندر دو پیروں پر کھڑا ہو کر سلیوٹ مارنا شروع کردے۔

اور تماشائی کی خوشی دیدنی یہ کرتب دیکھ کر تماشائی کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں کہ بندر نا صرف سمجھدار ہے بلکہ تابعدار بھی ہے۔ مداری کے کہنے پر کبھی ڈبے پر کھڑا ہوجاتا ہے تو کبھی سائیکل چلانا شروع کر دیتا ہے۔ مطلب سب کچھ ٹھیک ہے انڈر کنٹرول ہے جہاں بندر ذرا گستاخی کرے وہاں مداری کے ہاتھ میں موجود چابک اپنا کام کرتا ہے۔ لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں تماشا چل رہا ہے

مگر سوال اب بھی وہی ہے کہ بندر وہی ہے مگر مداری بدلنے سے تماشا نیا تھوڑی ہوجاتا ہے ایسے میں تماشائی کو بوریت کیوں نہیں ہو رہی تماشائی اکتا کیوں نہیں رہا ہے وہ کسی اور منظر کی تلاش میں کیوں نہیں ہے تماشائی کو کسی بھی مرحلے پر بندر سے ہمدردی کیوں نہیں ہو رہی؟ تماشائی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ آخر کب تک بندر مداری کی بھوک مٹانے کے لیے ناچتا رہے گا اور مداری کی بھوک کیوں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ مداری کی بھوک پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی جا رہی ہے

اب ان سوالوں کے جواب تماشائی سے کون طلب کرے۔ تماشائی سوالوں کے جواب کہاں دیتے ہیں وہ تو بس تماشا دیکھتے ہیں اور پھر کسی نئے تماشے کی تلاش میں آگے چل پڑتے ہیں۔ تماشائی کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بندر پر کیا گزر رہی ہے اور مداری کی بھوک کب ختم ہوگی۔ مداری کا پیٹ نہیں بھر رہا تو وہ قرض لیے جا رہا ہے کون اتارے کا یہ قرض کون سوال کرے گا کہ آخر اتنا قرض کیسے واپس ہو گا؟ کیا محض بندر کے ناچ اور تماشا سے یہ قرض اتارا جا سکے گا۔

ایک دن کا کھیل تماشا اختتام پذیر ہو جاتے تو مداری بندر کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے خود اپنے بستر پر سوتا ہے اور بندر کو دور ایک کونے میں باندھ دیتا ہے اور بہت منت لگا کر ایک سوکھی روٹی کا ٹکڑا بندر کے سامنے ڈال کر گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر اپنی فیاضی کا اعلان کرتا ہے اور بندر کے ناچ سے کمائے ہوئے پیسوں سے پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سکون کی نیند سوتا ہے۔ مداری کو معلوم ہے کہ تماشائی موجود ہے اور بندر کل بھی تماشا دکھائے گا لہذا اس کے بھوکے رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگلا دن ایک بار پھر بندر کی تابعداری اور سمجھداری کے سبب مداری کا اچھا گزر جاتا ہے اور اسی طرح مداری کا ہر دن ماضی کی طرح اطمینان سے گزر رہا ہے۔ جب تک بندر زندہ ہے اور تماشائی لطف اندوز ہو رہا ہے مداری کا کاروبار حیات چل رہا ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ اسی طرح تماشا کرتے کرتے اگر کسی دن بندر زندگی کی بازی ہار گیا تو کیا ہو گا؟ مداری کو دوسرا کوئی کام آتا نہیں اور نا ہی تماشائی کا دل کسی اور تماشے میں لگنا ہے؟ حرف آخر کہ اگر کھیل تماشا جاری رکھنا ہے تو مداری کو سوچنا ہو گا کہ بندر کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments