حکومت کی جانب سے ٹیکس کی ادائیگی میں اضافہ


وزیراعظم شہباز شریف نے کارپوریٹ اور امیر افراد کی آمدنی پر دس فیصد ٹیکس کی ادائیگی عائد کردی۔ کیا یہ نئے اقدامات ملک کی قوم کے لیے تسلی بخش ثابت رہے گے!

دراصل نئی حکومت نون لیگ کے پاس ایسے اقدام اٹھانے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا کیونکہ ملک میں موجود معاشی بحران سے ملک کی معیشت کم ہو گئی ہے اور ملک میں معاشی حالات کو درست کرنے کے لیے یہ اقدام اٹھانے لازمی ہو گئے تھے۔ حکومت کا کہنا ہے ٹیکس سے زیادہ پیسے لے کر دنیا بھر سے جھولی پھیلانے کی نوبت نہیں آئے گی اور ایک طرف غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کی بحالی کو محفوظ بنائے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کا بھاری ٹیکسوں کے شکار کارپوریٹ سیکٹر کی آمدنی پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کتنا کار آمد ثابت ہو گا!

24 جولائی 2022 وزیراعظم شہباز شریف کا کیا گیا فیصلہ آسانی سے نون لیگ کے بنیادی حلقے کو تاجروں سے بچاتا ہے اور معیشت کے دوسرے غیر ٹیکس یا کم ٹیکس والے طبقے جیسے زراعت کو جال لگانے سے بھی دور رکھتا ہے۔

دوسری طرف نون لیگ اور اس کے کولیشن پارٹنر کو ایس او ایز پر ہونے والے فضول خرچوں کو کم کرنے کی ضرورت سے بھی آزاد کرتا ہے۔ جو برسوں سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

کچھ نقصان پہنچانے والے سیکٹر کے ارادوں کو ختم کرنے سے در حقیقت دستاویزی شعبے کے مالی سال 2022 کے منافع پر یک وقتی سپر ٹیکس کے نفاذ سے زیادہ رقم کی بچت ہو سکتی ہے۔

اپوزیشن کی شدید تنقید کا حکومت کو سامنا کرنا پڑا اعلان کے فوراً بعد اسٹاک مارکیٹ دو ہزار پوائنٹ گر گئی۔

حکومت نے تیرہ سیکٹرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 29 فیصد سے بڑھا کر 39 فیصد کر دیا۔ اس مالی سال کی کمائی پر ٹیکس کی شرح میں دس فیصد کا اضافہ کر دیا گیا۔

اس غربت کم کرنے کے ٹیکس کا نام دیا گیا امیر سے لے کر غریب کو ریلیف دینے کا نام دیا گیا۔
ماہانہ 50 ہزار سے ایک لاکھ تک کی تنخواہ پر ڈھائی فیصد دینا ہو گا۔

ایک لاکھ سے تین لاکھ کی تنخواہ پر 12 فیصد ٹیکس ہو گا۔ ٹیکس ٹارگیٹ سات ہزار سے بڑھا کر 7 ہزار 775 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ نئے ٹیکس اقدامات کے مطابق تیرہ مخصوص سیکٹر جن میں بڑی کمپنیاں، بینکوں، شوگر سیمنٹ، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، ائر لائنز، آٹو موبائل مشروبات، تیل اور گیس، کھاد، کیمیکل اور تمباکو پر دس فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ جس سے 300 ملین سے زائد کا سالانہ منافع ظاہر ہو رہا ہے۔ ان کے منافع میں 10 سے 15 فیصد کی کمی آئے گی کیونکہ حکومت حکومت یہ رقم اضافی ٹیکس کی مد میں لے جائے گی۔ یہ اضافی ٹیکس 150 ملین روپے سے زیادہ سالانہ آمدنی والے اعلیٰ مالیات والے افراد پر لاگو کیا گیا ہے۔

حکومت کے اس قدم سے اسٹاک مارکیٹ میں ہل چل مچ گئی ہے حکومت کے لیے ٹیکس نیٹ کو راتوں رات وسیع کرنا ممکن نہیں ہو سکتا لیکن یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے کہ حکومت ملک کی معیشت اور معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے ایسے اقدامات سے بالکل بھی نہیں کترائی۔

نئے اقدامات زیادہ مہنگائی پیدا نہیں کریں گے نہ ہی اس سے معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوگی۔ تاہم یہ سپر ٹیکس کے تحت آنے والی کمپنیوں کے منافع کو نمایاں طور پر نچوڑ دے گا اور ان میں سے بہت سے ان کے مستقبل کے سرمایہ کاری کے منصوبوں اور دستاویزات کی حوصلہ شکنی کرنے کا امکان ہے۔ حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات ہمارے معاشی معاملات کی انتہائی افسوسناک حالت کی عکاسی کر رہی ہے۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں کوئی بھی ہم ہر بھروسا کرنے اور مشکل وقت پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔

لیکن حکومت کے لیے سخت پالیسی کا فیصلہ کرنا ہماری بقا کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments