مہنگائی کا طوفان اور بیچارے عوام


اس وقت پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے وہ تھمنے کی بجائے سنگین اور طویل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ گھریلو ضرورت کی ہر چیز پہنچ سے باہر ہو

چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے حکمرانوں نے عہد کر لیا ہے کہ عوام کو مشکلات کی دلدل میں دھکیل کر ہی سانس لینا ہے۔ معاملات اتنے سنگین ہیں کہ نوبت فاقوں تک جا پہنچی ہے اگر حالات ایسے ہی رہے تو ڈر ہے کہ لوگ بچوں سمیت خودکشی شروع نہ کر دیں۔

حالیہ برس روزمرہ کی اشیاء میں جس قدر اضافہ دیکھنے کو ملا اس سے پہلے شاید ہی ایک سال کی مدت میں کبھی اتنی مہنگائی دیکھنے کو ملی ہو۔ اشیائے خورد و نوش کی بات کی جائے تو گندم، آٹا، گھی، دالیں، مرغی کا گوشت، اور کئی چیزوں کا ریٹ آسمان تک پہنچ چکا ہے۔ مرد حضرات کو کمانے کی فکر اور عورتوں کو پکانے کی فکر نے گھیر رکھا ہے ہر ایک کو یہی پریشانی ہے کہ کس طرح گھر کا نظام چل سکے۔ تھوڑی سی تحقیق سے پتا چلا کہ پہلے اکثر گھروں والے بجٹ بنا کر ایک مہینے کا سامان اکٹھا لے آتے تھے اب چیزوں کے ریٹ بھی زیادہ ہیں اور پیسے کی بھی تنگی ہے اب مشکل سے ایک ہفتے کا سامان بھی بڑی مشکل سے آتا ہے۔

پھر بجلی، سوئی گیس، اور پانی، کے بل بچوں کے سکول کی فیس ادویات کا حساب الگ ہے۔ اور جو لوگ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ان کا کرایہ بھی شامل کر لو تو دماغ گھوم جاتا ہے۔ مالک مکان کہتے ہیں کہ کئی کرایہ داروں کا دو تین ماہ کا کرایہ باقی ہے اب جن کی آمدنی ایک روپیہ ہو اور خرچہ پانچ روپے تو وہ بیچارہ کدھر جائے گا۔ اور ہماری حکومت دو ہزار روپے ماہانہ دینے کی خوشخبری سنا رہی ہے۔ مہینے کے دو ہزار سے زیادہ تو ایک چھوٹا بچہ خرچ کر دیتا ہے۔ ہر بار بہتری کے دعوے کرنے والوں نے معصوم عوام کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سخت گرمی اور دھوپ میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنے والوں کو کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ اس سوال کا جواب کون سی حکومت دے گی سابقہ یا موجودہ بہرحال جواب تو دینا ہی ہو گا۔

بار بار پٹرولیم مصنوعات میں اضافے نے بھی عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ اب جو بندہ موٹر سائیکل پر مزدوری کے لئے جاتا ہے وہ پٹرول کا خرچہ پورا کرے گا یا گھر کے اخراجات کو دیکھے گا۔ ٹرانسپورٹ مالکان نے بھی کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے جس کا بوجھ بھی مزدور طبقہ اور عوام ہی برداشت کریں گے۔ جو لوگ کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں مالکان نے یا تو ان کو کرایہ بڑھانے عندیہ دیا ہے یا پھر گھر خالی کرنے کا۔ کاروباری حضرات جن کی دکان کرائے کی ہے ان کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ان پر بھی مہنگائی کے بوجھ کے علاوہ دکان کے مالک کی شرائط کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ سیل اور بچت کم ہو کر آدھی رہ گئی۔ اور دکانوں کا کرایہ بڑھ رہا ہے۔ ان کا بھی شکوہ ہے کہ جو تھوڑے بہت پیسے کماتے ہیں ان سے کرایا پورا کریں یا گھر چلائیں۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ مسائل یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتے ابھی تو بہت سی گھریلو پریشانیوں کا ذکر باقی ہے۔ آمدن اور اخراجات کی کشمکش میں اگر کسی نے گھر کی مرمت کروانی ہو یا نیا گھر بنانا ہو تو پریشانی اور بڑھ جاتی ہے۔ لوہا اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی اس کو خرید ہی نہیں سکتا۔ سیمنٹ کی قیمت بھی گیارہ سو سے اوپر ہے اور اینٹ کا ریٹ پندرہ ہزار کے قریب ہے پھر ریت، بجری، الیکٹریشن، سینٹری، اور مزدوری اگر ڈھائی مرلے کا نارمل سا مکان ہی بنانا ہو تو تیس لاکھ روپے کا بجٹ بن جاتا ہے۔

اور غریب کے پاس تو ہزار روپے نہیں بچتے وہ مکان کیا بنائے گا۔ پچھلی حکومت نے پچاس لاکھ گھروں کا اعلان تو کیا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا۔ جو حالات اب چل رہے ہیں غریب کے لئے مکان بیچنا بہت آسان ہے مگر خریدنا اور بنانا بہت مشکل ہے اس پر بھی حکومت کو کچھ کرنا چاہیے تا کے جن کے پاس اپنے گھر نہیں ان کو اپنا گھر میسر ہو۔

اب اگر انسان بیمار ہو جائے یا اس کو ہسپتال جانا پڑے تو ڈاکٹر کی فیس ادویات کا بل اور آپریشن وغیرہ کے اتنے پیسے بن جاتے ہیں۔ کہ غریب بیچارہ یا تو کسی سے قرض لیتا ہے یا اپنی کوئی قیمتی چیز بیچ کر ہسپتال کا بل ادا کرتا ہے۔ نہیں تو بغیر علاج کرائے ہی گھر میں سسک سسک کر مر جاتا ہے۔ ہماری حکومت عوام سے ہر چیز میں ٹیکس وصول کرتی ہے مگر ان کو وہ سہولتیں فراہم نہیں کرتی ہیں جن کے وہ حق دار ہیں۔

عوام کا حال دیکھ کر میں اتنا کہوں گا کے حکومت کے اعلی عہدیدار اگر بنگلوں میں رہتے ہیں تو عوام کو ایک گھر تو میسر ہو۔ اگر وہ قیمتی ڈریس پہنتے ہیں تو عوام کو عام کپڑا تو آسانی سے ملے۔ اگر ان کے دسترخوان رنگ برنگے کھانوں سے سے بھرے پڑے ہیں۔ تو غریب کو دو وقت کی روٹی آسانی سے مل سکے۔ خدارا اس ملک کے عوام کا کچھ سوچیں ان کے کے منہ سے دو وقت کا نوالہ مت چھینیں اس کو اتنا مجبور نہ کریں کہ یہ خودکشیاں کریں۔ مہنگائی کا بوجھ ڈالنا ہے تو ان پر ڈالیں جن کے پاس اربوں روپے ہیں۔ غریبوں پر اتنا رحم کریں کہ ان کو جینے دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments