وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اور حکومت کی ہٹ دھرمی


پاکستان اس وقت معاشی بحران سے دوچار ہے اور ملک عملاً ایک دلدل میں پھنس چکا ہے، جتنا نکلنے کے لیے زور لگایا جاتا ہے اتنا ہی دھنستا چلا جاتا ہے۔

جناب سراج الحق کے بقول:

”معیشت کی تباہی کی اس صورتحال کو عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو تمام خرابیوں کی جڑ سودی نظام معیشت ہے۔ پاکستان پر اس وقت سو ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ہے جس نے پوری معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ ملک کی کل جی ڈی پی 7500 ارب روپے ہے جس میں سے 2900 ارب سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جو کل آمدن کا انتالیس اعشاریہ سات فیصد بنتا ہے۔ جس ملک کی تقریباً آدھی آمدن سود کی ادائیگی میں چلی جائے، وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے؟“

اس وقت امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے 75 ممالک میں اسلامی بینکاری جاری ہے اور حیرت انگیز طور پر غیر مسلم بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے جس بینک نے اسلامی بینکاری کا آغاز کیا تھا اس میں سب سے پہلا اکاؤنٹ ایک غیر مسلم نے کھلوایا اور اب اس بینک کی 14 شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔ ملائشیا کے اسلامی بینکوں میں چالیس فیصد سے زائد کھاتہ دار غیر مسلم ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔

ہمارے ہاں اس پر زیادہ پیش رفت نہ ہونے کی اصل وجہ ملک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا معیشت پر کنٹرول ہے۔ آئی ایم ایف نے اژدھے کی طرح معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ سود پر قرضے دینے والے یہ کیسے پسند کر سکتے ہیں کہ ان کا کاروبار بند ہو جائے۔ اسی لئے اب آئی ایم ایف نے ہمارے ریاستی بینک کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 74 سال پہلے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بلا سود معیشت کا اعلان کیا تھا۔ مگر بانی پاکستان کے اس حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ہم نے پون صدی گزار دی۔ دستور پاکستان کی دفعہ ایف 38 میں دو ٹوک حکم دیا گیا ہے کہ ریاست جتنی جلد ممکن ہو، ربا کو ختم کرے گی لیکن قریبا نصف صدی سے حکمران دستور کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی درخواست پر وفاقی شرعی عدالت نے 1991 میں سود کے خاتمہ کا فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اپیل کردی۔

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومت نے بھی مسلم لیگ نون کی اپیل کی پیروی کی اور اپنے وکیل کے ذریعے اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ جنگ جاری رکھی، یعنی ان 32 سالوں میں حکومتیں تو بدلتی رہیں مگر ان کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بتیس سالوں سے ریاست نے عدالتی احکامات کو بھی پس پشت ڈالے رکھا۔ طویل ترین انتظار کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے قرآن و سنت اور دستور پاکستان کے روح کے مطابق سودی نظام کے خلاف تاریخی فیصلہ دے کر حکومت کو پابند کیا کہ وہ پانچ سال کے اندر اندر مالیاتی نظام کو سود سے پاک یعنی اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے لئے اصلاحات کر کے عملی اقدامات اٹھائے لیکن بدقسمتی سے حکومت نے ایک بار پھر سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کاوشیں شروع کر دیے۔ حکومتی ایماء پر سٹیٹ بینک سمیت دیگر نجی بینکوں NB، UBL، HBL، MCB نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جو درحقیقت بہت بڑا ظلم اور کریہہ فعل ہے۔ حکومت اور مذکورہ بینکوں کے اس قبیح عمل کے خلاف ایک تحریک شروع ہو چکی ہے، جس کی ہم مکمل حمایت کرتے ہیں۔

ایک بڑا فائدہ تو یہ ضرور ہوا ہے کہ یہ باقاعدہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اور کم ازکم نئی نسل میں سود کی تباہ کاریوں کے حوالے سے شعور پیدا ہوتا جا رہا ہے اور سنجیدہ حلقے بھی اس جانب متوجہ ہوتے جا رہے ہیں لیکن کچھ ایسے حلقے بھی ہیں جو بدستور ابہام پیدا کرانے کے لئے جت گئے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری گزارش ہوگی کہ۔

*بحث کو خلط ملط اور سودی نظام کے خلاف مہم کو کمزور کرانے کے لئے کج بحثی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں بخوبی علم ہے کہ پاکستان کے مالیاتی نظام کا پورا ڈھانچہ سود ہی پہ کھڑا ہے اور سرکاری و نجی بینک اسی نظام کا حصہ ہے۔

* تحفظات اور کراہت کے ساتھ بحالت مجبوری اضطراری کیفیت میں اکاؤنٹس کھولنے پڑتے ہیں لیکن احتیاط یہ ہوتی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ ہو یعنی امانت کے علاوہ کوئی اور فائدہ بالکل بھی نہ ہو۔

*اسلامی بینکاری کے حوالے سے جو کام اور پیش رفت ہوئی ہے وہ اگرچہ آئیڈیل نہیں ہے لیکن قابل تعریف ضرور ہے کہ کوئی سنجیدہ قدم تو اٹھایا گیا ہے جس میں بہتری کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ یاد رہے کہ یہ کام بنیادی طور پر ریاست ہی کا ہے اور جتنی بھی بہتری کی کوئی امید کی جا سکتی ہے وہ حکومت کے بغیر مشکل ترین بلکہ ناممکن ہے۔

متبادل کے طور پر جن بینکوں کی اسلامی بینکاری پر اطمینان ہو وہاں اکاؤنٹس کھولنے چاہیے۔
بقول ڈاکٹر محمد مشتاق:

”چونکہ بہت سے کبار اہل علم کا فتوی اس کے حق میں ہے، اس لیے ہم لوگوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ روایتی بینکوں کے بجائے بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت اسلامی بینکوں کے ساتھ تعامل کو ترجیح دیں۔“

*وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف جو تاریخی فیصلہ دیا ہے وہ اسلامی مالیاتی نظام کے حوالے سے امید کی ایک کرن ہے، اس کے نفاذ کے لئے بھرپور تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔

حکومتی ایماء پر جن بینکوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی حماقت کی ہے وہ بہت بڑی جسارت ہے اور 22 کروڑ عوام کے احساسات اور جذبات کو مجروح کرنے اور ”اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ“ کرنے کی ہمت ہے۔

ان بینکوں کے خلاف بائیکاٹ کی جو مہم شروع ہوئی ہے، اس میں کیڑے نکالنے، اسے مشکوک اور متنازعہ ٹھہرانے کی بجائے اس کی کامیابی کے لئے اپنے حصے کا کام کرنا ہی عقلمندی اور نیکی ہے۔

یہ سوال کہ اس سے کیا ہو گا، سراسر غیر سنجیدہ ہے کیونکہ احتجاج کا اپنا اثر ضرور ہوتا ہے اور بہت ساری باتوں میں جمع، منفی اور حسابات کی بجائے اپنی ذمہ داری پورا کرنے ہی میں نجات ہوتی ہے۔ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے کہ مصداق اگر کوئی مہم موثر چلتی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کا حصہ بنتے ہیں تو وہ کچومر نکال لیتی ہے۔ بینکوں سے اگر کروڑوں روپے کے اکاؤنٹس بند ہو جاتے ہیں تو اسے دن میں تارے نظر آئیں گے۔

یہ حکومت پر اور مذکورہ بینکوں پر دباؤ بڑھانے اور تحریک کو آگے بڑھانے اور اس حوالے سے شعور اور تحرک پیدا کرانے کا موثر ذریعہ ہے۔ اگر پوری سنجیدگی اور تیاری کے ساتھ یہ مہم چلتی ہے تو یہ ادارے ہی کیا حکومت بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگی۔

”ہم یہی عرض کریں گے کہ اگر حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں روڑے اٹکانے یا اس فیصلے پر من و عن عمل کرنے میں کسی کوتاہی کا ارتکاب کیا تو پھر جیسے ان لوگوں نے اللہ کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے، پاکستانی قوم ان کے خلاف جنگ لڑے گی۔ قوم پیچھے ہٹنے والے نہیں، اللہ اور رسول ﷺکے احکامات سے بغاوت کرنے والے حکمرانوں کے گریبان ہوں گے اور عوام کے ہاتھ ہوں گے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments