پیرس حملے: زندہ بچ جانے والے واحد حملہ آور صالح عبدالسلام کو تاحیات قید کی سزا، 19 دیگر افراد مجرم قرار


نومبر 2015 میں پیرس حملوں کے ذمہ دار گروہ کے واحد زندہ رہ جانے والے حملہ آور کو دہشتگردی اور قتل کا مجرم پایا گیا ہے۔

صالح عبدالسلام کو 130 افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے حملوں کے لیے تاحیات قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

عدالت نے 19 دیگر ملزمان کو بھی مجرم قرار دیا جن میں سے چھ کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔

گذشتہ ستمبر شروع ہونے والا ٹرائل جدید فرانسیسی تاریخ کا سب سے بڑا ٹرائل تھا۔

نو ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک متاثرین، صحافی، اور ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ پیرس میں خصوصی طور پر بنائی گئی اس عدالت کے باہر اکٹھے ہوتے تاکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے فرانس کے سب سے ہلاکت خیز حملے کو سمجھا جا سکے۔

شراب خانوں، ریستورانوں، قومی فٹ بال سٹیڈیم اور بیٹاکلان میوزک ایوینیو میں کیے گئے ان حملوں میں 130 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

ٹرائل کی ابتدا میں صالح عبدالسلام کافی مزاحم نظر آئے اور خود کو شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ‘سپاہی’ قرار دیتے رہے۔

مگر بعد میں اُنھوں نے متاثرین سے معافی مانگتے ہوئے عدالت کو اپنے اختتامی کلمات میں بتایا کہ وہ ‘قاتل’ نہیں ہیں اور اُنھیں قتل کا مجرم ٹھہرانا ‘ناانصافی’ ہو گی۔

اُنھوں نے ٹرائل کے دوران یہ بھی دعویٰ کیا کہ اُنھوں نے حملے کی رات اپنی خودکش جیکٹ نہ پھاڑنے کا فیصلہ کیا اور اسے پیرس کے نواح میں ٹھکانے لگا دیا تھا۔

تاہم عدالت نے یہ ثبوت تسلیم کیے کہ خودکش جیکٹ میں نقص تھا چنانچہ عدالت نے یہ بات نہیں مانی کہ صالح عبدالسلام کا آخری لمحات میں دل بدل گیا تھا۔

تاحیات قید کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے پاس 30 سال بعد پیرول پر رہائی کا ایک بہت تھوڑا سا امکان ہو گا۔ یہ فرانس میں مجرمان کے لیے سب سے سخت سزا ہے اور ملک کی عدالتیں بمشکل ہی یہ سزا کسی کو دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پیرس: ’حملہ آور صالح‘ کے بارے میں پانچ حقائق

پیرس حملے میں زندہ بچ جانے والے واحد ملزم: ’کسی کو قتل کیا نہ ہی نقصان پہنچایا‘

پیرس حملے: ’خوشگوار‘ ماحول میں بچپن گزرانے والے نوجوان جرائم کی دنیا میں کیسے داخل ہوئے؟

حملے میں بچ جانے والی ایک خاتون ایڈتھ سیورات نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرائل سے اُن کے درد کا ازالہ نہیں ہوا ہے اور وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔

‘ہمارے زخم، ہمارے صدمے اور ہمارے برے خواب اب بھی موجود ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ ہی جینا ہے۔’

ان حملوں میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے والد سٹیفان سراردے نے بی بی سی کو بتایا کہ طویل ٹرائل کی وجہ سے وہ اس سانحے کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اُنھوں نے کہا: ‘یہ بہت برے نو مہینے تھے۔ ہمیں انتظار کرنا پڑا، ہمیں دوبارہ اس سانحے کو یاد کرنا پڑا تاکہ اس کی تفصیلات کو یاد کر سکیں۔’

مگر اُنھوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے اُنھیں اپنے بیٹے ہیوگو کے بغیر زندگی گزارنے میں آسانی ہو سکے گی۔

پیرس

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے حملے میں بچ جانے والے ایک شخص آرتھر دینوویو نے کہا کہ فیصلہ آنے کے بعد بھی اُنھیں اپنے احساسات کے متعلق گومگو کی کیفیت کا سامنا ہے۔

‘میرے احساسات ملے جلے ہیں، خوشی بھی ہے، مستقبل کے بارے میں بہت سے سوالات بھی، اور اس زبردست ٹرائل کا حصہ بننے پر فخر بھی۔’

مزید کن لوگوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں؟

محمد عبرینی: 37 سالہ شخص نے اعتراف کیا تھا کہ اُنھوں نے کئی حملہ آوروں کو پیرس پہنچایا تھا۔ اُنھیں تاحیات قید کی سزا سنائی گئی ہے جس میں کم از کم 22 سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے ہوں گے۔

محمد بکالی: بیلجیئم اور مراکش سے تعلق رکھنے والے کوآرڈینیٹر کو ‘حملوں کو عملی جامہ پہنانے میں کردار’ کے لیے 30 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اُن پر الزام تھا کہ اُنھوں نے حملہ آوروں کو برسلز میں خفیہ جگہیں کرائے پر دیں۔

سوئیڈش شہری اسامہ کرائیم اور تیونسی شہری سفیان ایاری کو بھی اسی سیل کا حصہ ہوتے ہوئے ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کے جرم میں 30 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

محمد عثمان اور عادل حدادی کو 18 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے جس میں سے دو تہائی اُنھیں لازماً جیل میں گزارنے ہوں گے۔

دیگر چھ مدعا علیہان کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ حملوں کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments