معاشی مسائل حل اور خوشحالی شروع کرنے کے چند طریقے


میری خادم پاکستان سے گزارش ہے کہ اگر وہ قوم، ملک اور اپنی سیاست کو بچانا چاہتے ہیں تو تین کام کردیجئے آپ پر شکوے ختم ہوجائیں گے اور ہم انتہائی سنگین مسائل سے نکل آئیں گے۔

پہلے تو یہ ہے کہ ملک کو سولر حب بنا دیا جائے۔ فوری اس کی مینوفیکچرنگ، انڈسٹری اور درآمد پر ٹیکسز کو مکمل چھوٹ دے دی جائے تاکہ جتنی جلد ہو سکے اس کی قلت کو ختم کر کے عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورت انرجی سے جس قدر ہو سکے چھٹکارا مل سکے۔ اس کے لئے سولر اپلائنسز پر بھی ہر طرح کا ممکن فائدہ دیا جائے تاکہ ہر گھر تک باآسانی رسائی کو ممکن بنایا جا سکے۔

اسی طرح الیکٹرک بائیک کو چائنا کی طرز پر تمام رجسٹریشن اور ٹیکسز سے مبرا قرار دے کر اسے عام کر دیا جائے۔ اس کی قیمت عام آدمی کی پہنچ میں ہونی چاہیے۔ اسے ٹیکسی کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور سرکاری ملازمین سے لے کر عام مزدور تک اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شور پولیوشن سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ پٹرول کی کھپت ڈرامائی طور پر کم ہو جائے گی۔ ہو سکے تو بینکنگ کو بھی ان سمال لونز جس کی انتہائی کم قسطیں ہوں کی طرف راغب کیا جائے۔

جاپان کا ایک مقولہ ہے کائزن جس کا مفہوم ہے چھوٹے چھوٹے کاموں سے آغاز کیا جائے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھا جائے۔ یہ ترتیب بہت بڑے تجارتی انقلاب کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اس سے لوگوں کی نقل و حرکت تیز ہوگی۔ اور اس سے معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے اور اگر لوگوں کی نقل و حرکت کو اس پٹرول بم کی تباہی سے آزاد نہ کروایا گیا تو ان کی جام زندگی کے ساتھ ہی معیشت بھی جام ہو کر رہ جائے گی۔

اخراجات کی زیادتی اور آمدن کی کمی نے لوگوں کو اپنوں سے دور کر دیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے اپنوں کو ملنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ پٹرول کی مہنگائی نے تباہی مچا دی ہے۔ لوگوں کو اس سے آزادی حاصل کرنے کی آپشن دینی ہوگی جو سولر اور الیکٹرک کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ وگرنہ اس ترقی کے دور میں لوگوں کو اسی حالت میں چھوڑ کر ان کو بڑے بڑے جرائم کی طرف راغب کرنے کے مترادف ہو گا۔

ان سے فائدہ یہ ہو گا کہ انرجی کرائسز ختم ہوں گے اور حکومت پر کافی اضافی ذمہ داریوں سے لے کر اخراجات تک میں کمی آئے گی اور عوامی غیظ و غصب سے بھی نجات ملے گی۔ آئل کی امپورٹ پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بچے گا۔ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ کاروبار بہتر ہوں گے ۔ لوگوں کے ایسٹس بنیں گے اور وہ اپنے اخراجات کو کم کر سکیں گے۔ لوگوں کی جیبوں پر اضافی ڈاکے کی کوشش کو ناکام کر کے ان کو خوشحالی کی طرف گامزن کیا جا سکے گا۔ نفسیاتی ہیجان کی صورتحال خوفناک حد تک قوم و ملک کو جکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ اس سے نجات ملے گی۔

دوسرا تمام سب سڈیز کو زراعت خوراک اور بنیادی ضروریات کی چیزوں کی طرف موڑ دیا جائے اور اس پر ایمنسٹی سکیمز متعارف کروائی جائیں۔ اس سے ملک خود کفالت کی طرف بڑھے گا، زرمبادلہ کے ذخائز بہتر ہوں گے ، آبادی کا رجحان دیہاتی علاقوں کی طرف ہو گا، مجموعی معاشی حالت بہتر ہوگی اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل سے نجات ملے گی۔ بہت فائدے ہوں گے میں نے چند کی طرف اشارہ کیا ہے۔

تیسرا سب سے بڑا ہمارا ذریعہ آبادی ہے جسے مہم دہائیوں سے اپنے لئے خطرہ سمجھتے آرہے ہیں اور ہماری درآمدات سے لے کر معاشی بوجھ تک کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس چیلنج کو اپرچونٹی میں بدلنا ہو گا۔ انسانی وسائل کو ایسٹ بنانا ہو گا۔ ہر شہری کو کم از کم ایک ڈیجیٹل سکل سکھانا ہوگی اور پھر ان کو فری یا کم قیمت موبائل دے کر انٹرنیٹ کے ذریعے سے فوری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا سے ہم آہنگ اور اس کا حصہ بنانا ہو گا۔

دنیا کی مارکیٹ تک ان کی رسائی کو ممکن بنانا ہو گا، چھوٹے بڑے ہر ایک کو دنیا جدید کا حصہ بنانا ہو گا۔ ایک دفعہ ان کو انگلی پکڑ کر چلانا سیکھا دیا تو وہ خود ہی ہواؤں میں اڑنا شروع کر دیں گے اور قوم و ملک میٹا ورس، ہواؤں کی لہروں، وی آر، ویب تھری پوائنٹ او سے مریخ تو کیا آسمانوں پر ملک و قوم سمیت اڑان پکڑ چکے ہوں گے اور اقبال کا خواب ستاروں پر ڈالتے ہیں کمند کو عملی تعبیر مل چکی ہوگی۔

آزادی دیجئے اپنے شہبازوں کو کریپٹو کی دنیا میں غوطے لگانے دیجئے، چھوڑیے دقیانوسی اور کھل کر کھیلنے دیجئے نوجوانوں کو۔ اب پگوں والوں کو سیاست سے نکال کر ٹیکنالوجی کی دنیا کے گروؤں کے حوالے کرنے کا وقت ہے۔

پاکستان کو ڈیجیٹل بنا دیا جائے۔ سافٹ وئیر، ہارڈ وئیر کو عام کر کے عوام کو گلوبل بنا دیا جائے جس میں ہر شہری عمل بنیادی اور مقامی سطح پر کر رہا ہو مگر اس کی اڑان بین الاقوامی ہو۔

کھول دیجئے اپنے تمام بیرئیرز اور تمام حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو ہنگامی بنیادوں پرسافٹ وئیر سکھانے کے لئے ماہرین کو ڈیجیٹل سکلزسکھانے پر دن رات ایک کر دیجئے، کیا ڈی وی، انٹر نیٹ، ریڈیو، سوشل میڈیا سب پر چلنے والی نشریات کے ذریعے علم فراہم کرنے کو جنگی بنیادوں پر شروع کردیجئے۔ لرننگ ایپس کو عام کر دیجئے۔ سازشیں پھیلانے اور اس کی حصہ بننے والی فارغ قوم کو مصروف کر دیجئے۔ وہ کیوں سارا اپنا وقت گیم ہب پر صرف کرتے ہیں پورن وڈیوز پر اپنا وقت، توانائیاں اور صلاحیتیں ضائع کر رہے ہیں۔ ان کو ہنر دیجئے اپنا ملکی سرمایہ بنائیے اور ملک کے زرمبادلہ کے زخائر اکٹھے کرنے پر لگا دیجئے انکو۔

انٹرنیٹ کے ذریعے ماحول کو بدل دیجئے۔ کیا ہوا ترقی پذیر ہیں مگر ترقی یافتہ قوموں تک رسائی دے کر قوم کے اندر آگے بڑھنے کی جستجو کو جگا دیجئے۔ ان کو انٹر نیٹ کا وہ استعمال متعارف کروائیے جو ترقی کا ضامن ہے۔

سیاسی عدم استحکام، بد اخلاقی، بیروزگاری، غربت اور مہنگائی سب کا سبب صرف ہمارا ماحول ہے جس میں قوم کے لاشعور سے منفی سرگرمیوں کے ذریعے سے ان کے اندر نفرت، شدت، دہشت، سازشوں اور مایوسیوں کو اجاگر کر کے ان کے شعور کو دبا دیا جاتا ہے ان کو مثبت سوچنے، دیکھنے اور کرنے کے لئے ماحول سے کچھ ملتا ہی نہیں تو ان کے اندر آگے بڑھنے کا شوق کیسے پیدا ہو گا۔

بس ایک چھوٹی سی مثال دے کر مضمون کو اختتام کروں گا۔

آج بھی اس ترقی کے دور میں کیوں میرے ملک کا مزدور روزگار کے لئے اپنے بدن کی بولی لگوانے چوکوں میں کھڑا ہوتا ہے اور اس کو ڈھونڈنے والا پٹرول، وقت اور انرجی صرف کر کے ان کو چوکوں سے اٹھانے جاتا ہے۔ ایک مزدور کے نام پر بننے والی موبائل ایپ ملک کے سارے قرضے اتارنے کی طاقت رکھتی ہے تو پھر کیوں نہ اپنے چیف سے لے کر مزدور تک کو اس سے بہرہ ور کر کے ان کو ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بنا دیا جائے۔

اب انتظار کا وقت نہیں۔ ایک قومی نمائندگی مگر کمزور وجود والی حکومت کو فقط عوام کے اعتماد سے ہی مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ وگرنہ کل کے اجلاس میں جس طرح آپ نے مایوسیوں اور محرومیوں کو انگڑائیاں لیتے دیکھا ہے وہ زیادہ وقت دینے کی پوزیشن میں نہیں لگتیں۔ جلدی کر لیجیے اور قوم و ملک کو ایک مثبت سمت بڑھنے کے لئے راہ دکھا دیجئے۔ اندھیروں کے ذکر کو ہی معیوب بنا دیجئے انسان کے اندر باہر کو روشن کر دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments