لفافہ صحافت، ساشے دانشور اور خواب گزیدہ قوم


عمران خان نہ ہوتا تو عمران ریاض کو کون جانتا؟ بظاہر تو وہ لاکھوں فالورز رکھنے والا مقبول صحافی ہے، جو بقول اس کے یوٹیوب کے مہینے بھر کی آمدنی سے چالیس پچاس لاکھ کا گھر خرید سکتا ہے، اب ’چور ڈاکووں‘ کے خلاف اس لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹنے والا جو کسی نے اسے فائلیں وڈیوز اور ثبوت دکھا کر شروع کرائی تھی۔ لیکن وہ نہیں بتا سکتا کہ جنہوں نے ثبوت مہیا کر کے اسے لڑائی لڑنے پر آمادہ کیا تھا اور اس نے غیر صحافیانہ انداز میں تحقیق اور تصدیق کے بغیر ان ثبوتوں کو سچ مانا تھا، آج ان کی بات کیوں نہیں مانتا؟ کیا اسے لڑائی پر آمادہ کرنے والے اب عمران ریاض سے لفافہ صحافت کے ذریعے بنائے گئے پیسے گاڑیوں فارم ہاؤس اور بنک بیلنس کا حساب مانگ رہے ہیں؟ یا لفافہ ملنا بند یا ہلکا کر دیا گیا ہے؟ جس کی وجہ سے وہ ڈٹ گیا ہے۔

جس شخص میں تجزیہ کرنے، سچ سے جھوٹ الگ کرنے خبر کو مختلف ذرائع سے کراس چیک کرنے کنفرم کرنے یا رد کرنے اور الفاظ کے پیچھے مقصد کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو۔ جو جیسا سنے دیکھے یا حوالہ کیا جائے اسے ویسے ہی لکھے یا بیان کریں وہ صحافی نہیں تھرڈ کلاس پروپیگنڈسٹ ہوتا ہے اور عمران ریاض ایسا ہی ایک پروپیگنڈسٹ ثابت ہوا جب وہ کہتا ہے کہ مجھے فائلیں ویڈیوز اور ثبوت دکھائے گئے تو میں میدان میں کودا تھا۔ نہ اس وقت جب اسے ریکروٹ کیا گیا اس میں صحافیانہ سوچ سمجھ تھی اور نہ اب اسے یقین آتا ہے کہ اسے ایک خاص مقصد کے لئے ٹرین کر کے استعمال کیا گیا ہے۔

رتھوں کی دوڑ اور خوبصورت تاریخی کاسٹیوم کی بنا پر بن حر ایک شاندار فلم تھی۔ پروڈیوسر نے کالے اور سفید رنگ کے ایک جیسے گھوڑوں کی پوری اصطبل پالی تھی۔ جس میں ایک سو پچاس گھوڑے فلم کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہو کر محض لنگڑانے کی وجہ سے مارے گئے تھے۔ اور جن گھوڑوں نے فلم مکمل کی ان کو فلم کی تشہیر کے لئے دنیا کے مشہور شہروں میں گھمانے کے بعد صحت مندی کی حالت میں گولی ماری گئی تھی۔ جب پروڈیوسر سے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ان کی ٹرینگ رتھوں کے گول میدان میں دوڑنے کے لئے ہوئی تھی وہ سیدھے دوڑنے سے قاصر تھے اس لیے ان سے جان چھڑائی۔

عمران ریاض جس میدان میں دوڑنے کے لئے ٹرین کر کے اتارا گیا تھا وہ ویسا ہی گول چکر والا میدان تھا، جس کی وجہ سے اب وہ سیدھا دوڑنا کجی اور جرم سمجھتا ہے۔ گھوڑا سیدھا بھی دوڑتا ہو، تو اس کا جیتا ہوا کپ اس کے اصطبل میں نہیں مالک کے ڈرائنگ روم میں سجا ہوتا ہے، پھر ریس کا فیصلہ گھوڑا نہیں کرتا نہ مقابلہ اس کا ہوتا ہے اور نہ لنگڑے اور گول چکر میں دوڑنے والے گھوڑے فلم کی شوٹنگ کے بعد کسی کام کے نہیں ہوتے ہیں۔ اس لیے عمران ریاض کو سیاست کرنے کی بجائے چاہیے کہ اپنے لفافہ صحافت پر فخر کرنے کی بجائے اپنے آپ میں خبر کی تحقیق، تجزیہ، کراس چیک، تصدیق اور رد کرنے کی کوالٹی پیدا کرے ورنہ اس چھوٹی سی عمر میں جتنا کمایا ہے اسے بچائے، کیونکہ ڈٹ کر کھڑا ہونے کے لئے سیدھا دوڑنا پڑتا ہے گول چکر میں نہیں۔

ہم قرون وسطیٰ کے طلسم میں گرفتار نیم وا آنکھوں سے خواب دیکھنے والے ہر عمران ریاض، اوریا مقبول جان اور ساشے دانشور حماد صافی پر یقین رکھنے والی ایسی قوم ہے جن کے دماغ صدیوں پرانے سمرقند و بخارا اندلس و قرطبہ کے کھجوروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہیں لیکن پیر اکیسویں صدی کے تپتے صحرا میں۔ اس لئے ہماری تاریخ میر کے کسی سہل ممتنع شعر کی مصداق ہے۔ کسی نے خواب دیکھا، کسی اور نے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی اور ملک بن گیا۔ جس ریاست کی تاریخ اتنی سادہ ہو گی تو پھر قوم خواب گزیدہ نہیں ہوگی، تو کیا بیدار ہو گی؟ ہمیں ہمیشہ سراب، خواب بنا کر بیچے گئے، تبھی تو مقبول جان، طارق جمیل اور طاہر القادری ہمیں مقدس خواب بیچ رہے ہیں۔ جب کہ درحقیقت جو لوگ کسی ڈر کی وجہ سے سیدھا اپنے آپ کو اللہ کا بھیجا ہوا فرستادہ نہیں کہہ سکتے وہ پیامبر بن کر اپنے آپ کو مقدس ہستیوں اور عوام کے درمیان خوابوں کی کڑی بناتے ہیں، یوں وہ خود بھی متقی اور مقدس ہستیاں بنتی ہیں اور ساتھ ان کے دیرینہ مقاصد بھی احسن طریقے سے پورے ہو جاتے ہیں۔ پیغمبر ﷺ کیوں کسی دوسرے کا پیغام کسی اور کے خواب کے ذریعے اسے پہنچائیں گے؟ اگر وہ اس کے خواب میں تشریف لا سکتے ہیں، تو جس کو پیغام دینا مقصود ہو اس کے خواب میں تشریف نہیں لا سکتے؟

اخباری رپورٹر وقت سے پہلے نکاح کا بھانڈا نہ پھوڑتا تو وقت آنے پر قوم سنتی کہ نبی ﷺ نے سابقہ خاتون اول کو خواب میں دو احکامات دیے تھے۔ ایک خاتون کے لئے اور دوسرا قوم کے لئے۔ پہلا حصہ طلاق لے کر عمران سے شادی کا تھا اور دوسرا حصہ قوم کے لئے تھا کہ آب اسے وزیراعظم منتخب کر دے۔ سابقہ خاتون اول کہتی کہ حسب حکم طلاق لے کر میں نے عمران خان سے شادی کر کے مقدس خواب کا اپنا حصہ پورا کر ڈالا، قوم بھی ووٹ دے کر اپنا حصہ پورا کرے۔ لیکن طاہر القادری کی عمر والے خواب کی طرح یہاں بھی گڑبڑ ہو گئی کیونکہ رپورٹر (عمر چیمہ) نے وقت سے پہلے نکاح کی خبر لیک کر دی۔

علامہ اقبال بھی اپنے خواب کو مقدس بنا سکتے تھے لیکن اس دور کے مسلمان اتنے دریدہ دہن نہیں ہوئے تھے کہ سیاسی مقاصد کی خاطر مقدس خواب تخلیق کرے۔

نبی ﷺ نے اپنے کسی دوست کو بتایا کہ جب آپ مجھے خواب میں دیکھو تو وہ میں ہی ہوں گا۔ یہ نبی ﷺ کا زمانی فرمان ہے، جو ان لوگوں کے لئے تھا جو نبی ﷺ کو جانتے تھے، کیونکہ وہی انہیں خواب میں دیکھ کر پہچانتے تھے۔ اب جس نے نبی ﷺ کو دیکھا نہیں ہے وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس نے نبی کو خواب میں دیکھا ہے؟ نبی ﷺ کی کوئی شبیہ موجود نہیں جو خواب دیکھنے والے نے پہلے سے دیکھی ہو، جس کی وجہ سے خواب میں دیکھ کر وہ پہچان لے گا کہ اس نے ان کو دیکھا ہے۔ بس دماغ میں ایک ذاتی تصور ہے، جو خواب میں مجسم ہو جاتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی نے نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے۔

نبی ﷺ نے کبھی نہیں کہا کہ میں خوابوں میں آ کر احکامات دوں گا، یا کسی کو پیغامات کا ذریعہ بناؤں گا۔ ایسے خواب بیان کرنے والے اپنی تقدس کا اظہار کرنے کے لئے ایسے بیانات دیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ میں تم میں سب سے زیادہ متقی ہوں اس لیے مجھے آپ کو پیغام دینے کے لئے نے چنا گیا ہے۔ جب کہ سوال یہ ہے کہ دوسروں کو پیغام دینے کے لئے آپ کو کیوں چنا گیا؟

نبی ﷺ نے خوابوں میں پیغام دینے ہوتے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ پر جان لیوا حملے سے پہلے انہیں خبردار کرتے، عثمان اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بتایا ہوتا کہ کیا ہونے والا ہے، جمل میں آپس میں لڑنے والوں کو منع کیا ہوتا۔

ایک طرف ایاز امیر عمران خان کو سامنے آ کر نام لینے کی ہمت دلا رہا ہے کہ ماضی میں کمزوری دکھانے کے باوجود اب چے گویرا بن کر کھل کر سامنے آئیں، شف شف کرنے، امریکی سازش شہباز شریف زرداری اور مولانا کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ایک دفعہ پورا شفتالو کہہ دے لیکن وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر بیٹھے رہتے ہیں اور دوسری طرف عمران ریاض ان طاقتوں کو للکارتا ہے جنہوں نے اسے گول چکر والے ریس کے میدان میں اتارا تھا۔ دوسری طرف اوریا مقبول جان سیاست کو روحانی ٹچ دے کر اپنی سچائی کے مہر سے اوتھ کمشنر کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن پھر بھی ایسٹبلشمنٹ ساشے دانشوروں کے ذریعے، یونیورسٹی کے بچوں کو خواب بیچنے سے باز نہیں آتی۔

یاد رہیں کہ ناقابل برداشت مہنگائی اور ظالمانہ ٹیکسوں نے بے حس حکمرانوں اور مایوس عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ کافی حد نازک بنا دیا ہے۔ مہنگائی اور خرابی کس کی وجہ سے ہے، اب ایسی باتوں میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ سیاستدان نکمے ثابت ہو رہے ہیں تو اسٹبلشمنٹ بے نقاب ہو گئی ہے۔ کوئی آسرا تو ہو جس کے چاروں طرف کل قوم اکٹھی ہو جائے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments