انڈیا نے دنیا کو ڈیٹا اکٹھا کرنے کا فن کیسے سکھایا؟


آج انڈیا کے ڈیٹا یا کسی بھی مسئلے پر اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے چاہے وہ ملک میں کووڈ سے ہونے والی اموات کی تعداد ہو یا بیروزگار افراد کے لیے روزگار کے مواقعے، اس سب کے متعلق مستند اعداد و شمار کے لیے آزاد ماہرین سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔

مؤرخ اور مصنف نکھل مینن لکھتے ہیں کہ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب انڈیا کو دنیا بھر میں ڈیٹا جمع کرنے کے حوالے سے عالمی سطح پر سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا۔ برطانوی راج سے آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی انڈیا نے سوویت یونین سے متاثر ہو کر پانچ سالہ مرکزی منصوبے کے تحت اپنی معیشت کو بہتر کرنے کا سوچا۔

اس بات نے پالیسی سازوں کے لیے یہ ضروری بنا دیا تھا کہ انھیں انڈین معیشت کے متعلق باریک اور مستند اطلاعات تک رسائی ہو۔

اس وقت یہاں انڈیا کو ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انڈیا کے پہلے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے پاس اس بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہم اندھیرے میں کام کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک جامع اور وسیع ڈیٹا بیس یعنی اعداد و شماع کا ذخیرہ بنانا روشنی جلانے کے مترادف ہو گا۔

شاید اس حوالے سے متعارف کروائی گئی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ اہم نیشنل سیمپل سروے تھا جسے سنہ 1950 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد وسیع و عریض ملک گیر سروے کا ایک سلسلہ تھا جس میں شہریوں کی معاشی زندگی کے تمام پہلوؤں پر معلومات حاصل کی گئی تھیں۔

اس کے قیام کے پیچھے یہ خیال تھا کہ ملک کے ہر گھر سے اعداد و شمار اکٹھا کرنا ناممکن اور شاید بہت مہنگا ہو لہٰذا یہ بہتر ہے کہ اس ضمن میں اعداد و شمار کا ایک جامع مگر نمائندہ نمونہ تیار کیا جائے جس سے ایک چھوٹے گروہ کے ذریعے پوری آبادی کا حساب لگایا جا سکے۔

سنہ 1953 میں انڈین اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق اسے ‘اب تک کسی بھی ملک میں کی گئی سب سے بڑی اور جامع سیپملنگ انکوائری’ قرار دیا گیا تھا۔

انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس کام کی ذمہ داری سائنسدان پی سی ماہالانوبیس کو سونپی تھی جنھیں آج انڈیا کے شماریات اور انڈین شماریاتی ادارے کے بانی اور باپ کہا جاتا ہے۔

انھیں بہت سے مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کل 560,000 میں سے 1,833 دیہاتوں سے اعداد و شمار کا صحیح طور پر سروے سیمپل کرنے کے لیے اس ادارے کے تھوڑے سے عملے کو ایسے محققین کی ضرورت تھی جو 15 زبانوں اور پیمائش کے 140 مقامی نظاموں کو سمجھتے ہوں اور وہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ بات چیت کر سکیں۔

ماہالانوبیس نے اپنی ڈائری میں اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کے بارے میں ایک پرجوش مہم جو کی طرح لکھا تھا۔ اہلکاروں کو اڑیسہ کے ‘جنگلی علاقوں’ میں مسلح محافظوں کے ساتھ جانا پڑتا تھا تو کبھی انھیں ہمالیہ کے برف پوش پہاڑی راستوں پر چلنا پڑتا تھا۔

ان کی ڈائری میں لکھی زبان اس دور کے رجحان اور رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔ آسام میں سروے کرنے والوں نے ‘سب سے زیادہ مہذب لوگوں’ اور "غیر مہذب قبائل’ سے ملاقات کی جو کوئی عام بولی جانے والی زبان نہیں بولتے تھے۔ انھوں نے لکھا کہ ‘قبائلیوں کو پیسے کا مطلب نہیں پتا تھا’ اور وہ ‘اقتصادی ترقی’ کے لفظ پر ہنستے تھے۔

انھوں نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ‘دیگر بہت سے علاقوں میں قومی سروے کے عملے کو مجرموں نے پریشان و ہراساں کیا۔ اس مہم کے دوران ایک مستقل مسئلہ جنگل تھا۔ ‘جنگلی جانوروں اور وبائی بیماریوں کے خطرے کے ساتھ موجود گھنے، ناقابل تسخیر جنگلات۔’

اس سروے کے عملے نے شکایات کی تھیں کہ کچھ علاقوں میں خطرہ اور بھی سنگین تھا: جہاں ‘جنگلی درندوں اور آدم خوروں سے’ جنگلوں میں لڑنا پڑا تھا۔

لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود سروے کے نتائج غیر معمولی اور شاندار تھے اور یہ عام انڈین شہریوں کی روز مرہ زندگیوں کے متعلق مفصل معلومات دیتے تھے۔

مثال کے طور پر دوسرے سروے میں پالیسی سازوں کو بتایا کہ انڈیا کی مغربی ریاست تمل ناڈو کے ایک دور دراز کے گاؤں میں رہنے والا چدم برم مڈلے، ان کی بیوی، تین بیٹیاں اور ساس گھی، چاول، گندم، نمک، چائے مرچوں اور دیگر اشیا ضروریہ پر کتنا خرچ کرتے ہیں۔

اگرچہ اس خاندان کا مالی خرچ انفرادی طور پر اہم نہیں تھا، مگر جب دسیوں ہزاروں افراد کے دیگر ڈیٹا پوائنٹس کے ساتھ جمع کیا گیا، تو اس نے اقتصادی منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کو معیشت کو بنیادی طور پر مختلف طریقے سے سمجھنے میں مدد دی۔

تب سے نیشنل سیمپل سروے نے انڈیا کی معاشی زندگی کے بارے میں مسلسل مستند اور اچھی مفصل معلومات اکٹھی کی ہیں۔ جس سے ملک میں غربت، روزگار، طلب و رسد اور اخراجات کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔

مزید یہ کہ اس نے عالمی سطح پر پالیسی سازی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس کی طرف سے پیش کیے گئے ڈیٹا اکٹھے کرنے کے طریقے اب عالمی بینک اور اقوام متحدہ استعمال کر رہے ہیں جیسا کہ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات انگس ڈیٹن اور شریک مصنف ویلری کوزل نے 2005 میں لکھا تھا: ‘جہاں ماہالانوبیس اور انڈیا نے قیادت کی، باقی دنیا نے اس کی پیروی کی، تاکہ آج زیادہ تر ممالک کے پاس گھریلو آمدنی یا اخراجات کے حالیہ اعداد و شمار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ملازمتوں کے اعداد و شمار مودی کے لیے ایک اور مشکل

کیا انڈیا میں واقعی مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟

پانچ لاکھ یا 50 لاکھ: کیا ہم کبھی یہ جان سکیں گے کہ کووڈ سے کتنے انڈین شہری ہلاک ہوئے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے ‘زیادہ تر ممالک انڈیا کی صرف اعداد و شمار اکٹھا کرنے کی صلاحیت سے حسد کر سکتے ہیں۔’

ماہرین اقتصادیات ٹی این سری نواسن، روہنی سوماناتھن، پرنب بردھن اور ایک اور نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بینرجی نے اس بارے میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ‘ایک ترقی پذیر ملک میں مکمل طور پر قائم ہونے والے مقامی ادارے کی کسی بڑے شعبے میں عالمی رہنما بننے کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ہے۔‘

جدید انڈیا کے ڈیٹا حاصل کرنے کی صلاحیتوں کا عروج ماہالانوبیس (جو "پروفیسر" کے نام سے جانے جاتے تھے) کی کہانی سے مختلف نہیں ہے۔ یہ تب شروع ہوئی جب ماہالانوبیس پہلی عالمی جنگ کے دوران کیمبرج سے کلکتہ واپس آ رہے تھے تو انھیں بحری جہاز میں سفر کے دوران ایک شماریات کا جریدہ دیکھنے کا اتفاق ہوا اور اسی اتفاق نے ملک کی آزادی کے دہائیوں بعد ڈیٹا کے انفراسٹرکچر کو بدل کے رکھ دیا۔

انڈیا کے سرسبز شہر کلکتہ جو اب کولکتہ کے نام سے جانا جاتا ہے میں انڈیا کے ادارہ برائے شماریات کی طرف دنیا کے چند سرکردہ شماریات دانوں اور ماہرین اقتصادیات کو متوجہ کرتے ہوئے، ماہالانوبیس نے اسے بین الاقوامی معیار کے ادارے تک پہنچانے میں مدد کی۔

انھوں نے مل کر انڈیا کی مجموعی قومی پیداوار کا حساب لگانے میں مدد دی، مرکزی شماریاتی ادارے کے عملے کو بنایا، قومی نمونہ سروے کو ڈیزائن کیا، اور انڈیا کو اپنا پہلا ڈیجیٹل کمپیوٹر دیا۔ ان کا بنایا ہوا زیادہ تر ادارہ جاتی فن تعمیر آج بھی برقرار ہے، اور انڈیا ماہالانوبیس کی تاریخ پیدائش، 29 جون کو ’قومی دن برائے شماریات‘ کے طور پر مناتا ہے۔

لیکن آج انڈین شماریاتی اعداد و شمار بحران کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

جیسے جیسے دنیا ’بگ ڈیٹا‘ کے دور میں داخل ہو رہی ہے، انڈیا کے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔ دی اکانومسٹ نے حال ہی میں خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے متنبہ کیا کہ ملک کا ’شماریاتی بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو رہا ہے۔‘ کووڈ اموات سے لے کر تعلیم، غربت تک کے معاملات پر سرکاری اعداد و شمار پر آزاد مبصرین اور ماہرین تیزی سے عدم اعتماد کر رہے ہیں۔ جس کے پالیسی سازی اور حکومتی جوابدہی کے لیے خطرناک نتائج ہیں۔

جو چیز اسے خاص طور پر بدقسمت بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا نے کبھی اس میدان میں سب سے یکتا اور آگے تھا۔ ملک کو اب اس وراثت پر فخر کرنا چاہیہ اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا چاہیے۔


نکھل مینن کتاب، پلاننگ ڈیموکریسی: ہاو اے پروفیسر، این انسٹی ٹیوٹ، اینڈ این آئیڈیا شیپڈ انڈیا، کے مصنف ہیں، جسے پینگوئن وائکنگ نے شائع کیا ہے۔ وہ نوٹری ڈیم یونیورسٹی میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments