سندھ کے الیکشن میں یہ وڈیرہ آخر ہے کون؟


1۔ اک نائب قاصد سے کلرک تک ترقی پا جانے والے کو سارا میڈیا وڈیرہ کہہ رہا ہے کیونکہ اس نے پریزائڈنگ افسر کو گالی دے کر تھپڑ مارا۔

وہ نائب قاصد یعنی پٹیوالا تھا اور اب کلرک ہے مگر میڈیا کے لیے وہ وڈیرہ ہے۔ کوئی تنقیدی شعور رکھنے والا اس کو محض اس لیے پروپیگنڈا کہنے سے کترا رہا ہے کیونکہ یہ اس وقت پاپولسٹ نعرہ ہے کہ سندھ میں جمہوریت نہیں وڈیرہ شاہی ہے۔

2۔ ایک ترقی پسند پارٹی سے تعلق رکھنے والا پڑھا لکھا جیتنے والا وائٹ کالر امیدوار اپنے حق میں ووٹ نہ ڈالنے والے دوسرے وائٹ کالر ووٹر کو یہ کہتا ہے کہ اب ہم کمیونٹی والے تمہارا جنازہ نہیں اٹھائیں گے۔ مگر وہ وڈیرہ نہیں کہلاتا۔ مگر پاپولسٹ بیانیے میں وہ ترقی پسند کہلائے گا وہ اپنے ووٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے بیشک ان ہی وڈیروں والا رویہ اختیار کرے کہ جو ووٹ نہیں دے گا یا حمایت نہیں کرے گا اسے برادری سے یوں نکال دیا جائے گا کہ کوئی اس کا جنازہ نہیں پڑھے گا۔

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاپولسٹ پروپیگنڈا سے ہٹ کر میں وڈیرہ کس کو کہوں۔ اور کیسے مانوں کے سندھ میں الیکشن جمہوری نظام کا حصہ نہیں فقط وڈیرہ شاہی ہے اور باقی صوبوں کے اندر ایسے ہی الیکشن شفاف جمہوری نظام کا حصہ ہیں۔

ماضی سے لے کر اب تک تمام پاکستان کے الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ابھی سندھ میں ہوئے ہیں۔ مگر پاپولسٹ پروپیگنڈا کے عین برعکس سندھ میں اب بھی کئی غیر متوقع نتائج آتے ہیں جو کسی اور صوبے میں تصور کرنا بھی ناممکن ہے۔

یہاں ووٹ سیاسی شعور کی علامت ہے اور باقی صوبوں کے برعکس یہاں عوامی شعور خود الیکشن کو مانیٹر کر رہا ہوتا ہے۔

مثلاً

1۔ حکمران جماعت اکثریت سے جیتی ہے مگر ایک سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور ایک موجودہ ایم این اے نفیسہ شاہ کے حلقے سے ایک گدھا گاڑی چلانے والے کی بیٹی جیتی ہے جس کو نفیسہ شاہ نے مبارکباد بھی دی۔

2۔ صرف وہ نہیں ایک بریانی بیچنے والا مخالف پارٹی کا بندہ بھی جیتا ہے۔ ایسی ایک دو اور مثالیں بھی سامنے ہیں جس میں کم پیسے اور کم طاقت والے لوگ ووٹ کی بنیاد پہ جیتے ہیں۔

3۔ جو جماعتیں تیس فیصد سیٹوں پہ بھی اپنے نمائندگان کھڑے نہ کر سکیں اور کئی حلقوں سے مثلاً تھر میں گیارہ جماعتیں مل کر بھی اپنے امیدوار کو ایک ووٹ بھی نہ دلا سکیں وہاں یہ پروپیگنڈا کہ سارا الیکشن دھاندلی زدہ تھا یا کہ اب بھی حکمران جماعت حلقے کی سیاست سے جیت نہیں سکتی یہ مبالغہ آرائی وہ بیشک کر سکتے ہیں جو سندھ میں نہیں رہتے ورنہ پروپیگنڈا کے عین برعکس لوگوں کی اکثریتی پارٹی کا الیکشن جیت جانا غیر معمولی بات نہیں۔

4۔ میڈیا پروپیگنڈا کے برعکس اب بھی حکمران جماعت عوام کی اکثریتی جماعت ہے۔ اس لیے وہ جیت بھی رہی ہے اور چونکہ لوگ اس کے کہیں کہیں ناپسند کرتے ہیں اس لیے ہار بھی رہی ہے مگر دوسری وفاقی پارٹیاں کسی بڑی سطح پہ پیپلز پارٹی کو اپ سیٹ کرنے میں اس لیے ناکام ہیں کہ ان کو سندھ میں سیاست کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں خواہ وہ نون لیگ ہو یا پی ٹی آئی۔

5۔ ماضی کے برعکس اس دفعہ مقامی پارٹیوں کی الیکشن میں سنجیدگی کی وجہ سے مثبت نتائج بھی آئے ہیں اور انہوں نے کئی بڑے بڑے پارٹی راہنماؤں کے حلقوں میں ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست دی ہے۔

6۔ دس پندرہ ووٹوں کے فرق والے حلقوں کی ری کاؤنٹنگ میں حکومت کے حمایت یافتہ امیدواروں کے جیتنے پہ حکومتی مشنری کا الزام درست ہے تو پھر مخالفین بھی ری کاؤنٹنگ میں جیتے ہیں اور حکمرانوں کے حمایت یافتہ جیتے ہوئے امیدوار ری کاؤنٹنگ میں شکست کھا گئے ہیں۔

اس لیے میڈیا کی پاپولسٹ پروپیگنڈا پہ سر دھن کر کہنا کہ جمہوریت ہار گئی، جمہوریت بک گئی، اب
فوج کو بلاؤ
فوج کو بلاؤ

والا مطالبہ کسی صورت درست نہیں۔ الیکشن کے نتائج خود ثابت کرتے ہیں کہ وقت پہ الیکشن اور جمہوری اداروں کا چلتے رہنا ہی اس کا علاج ہے۔

فوج کا ٹیکہ اس جمہوری نظام کا بچانے کے لیے نہیں مگر آپ کے جمہوری حق کو کنٹرول کرنے کے لیے آتا ہے۔ اس لیے کسی بھی عدالتی فیصلے پہ بغلیں بجانے سے بہتر ہے سویلین اداروں پہ چیک رکھیں اور ان کو بہتر بنانے کے اقدام کا مطالبہ کریں۔ نا صرف جمہوریت بلکہ پاکستان کے تمام جمہوری اداروں کی درستگی کے لیے سویلین سپریمیسی کی جنگ لڑنا زیادہ مناسب ہے اس لیے اس جمہوری نظام کے لیے سیاسی جماعتیں حکمران جماعتوں پہ خود چیک رکھیں کہ یہ ان کا حق ہے۔
وہ اپنا یہ حق فوج کو نہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments